جلوہ فرما ہو گیا وہ ماہِ انور نور کا
جس کی نعلِ پاک کا ذرہ ہے اختر نور کا
زلفِ سرکارِ دو عالم ہیں گھٹائیں نور کی
دست اطہر پائے اطہر قلب اطہر نور کا
ان کے قدموں سے لپٹ کر جان دینا زندگی
خلد میں اڑتا پھرے گا لے کے شہپر نور کا
قدسیوں کے جھنڈ تیرے گرد منڈلاتے ہیں یوں
شمع تو ہے نور کی ہاں تو ہے محور نور کا
تیرے در کی کھا رہے ہیں ٹھوکروں سے بچ گئے
چل رہا ہے تیرے در پر تیرا لنگر نور کا
دنیا تیری ٹھوکروں کے بھی نہ قابل تھی حضور
ورنہ دنیا دیکھتی ہر سمت منظر نور کا
غوث و خواجہ شافعی و مالکی و حنبلی
ہے ہر اک محبوب تیرے در پہ گوہر نور کا
مسلک و مشرب ترے دو جاری چشمے نور کے
بو حنیفہ نے دکھایا تیرا جوہر نور کا
لاکھ جانوں کو پچھاڑے لاکھ پر بھاری پڑے
شیر تیرا ہے رضا اللہ ھو اکبر نور کا
جس نے تعظیمِ رسالت کی ہمیں تعلیم دی
جس نے دل میں کر دیا رتبہ اجاگر نور کا
روشنی عشقِ نبی کی دہر میں باقی رہے
ہم نے تو مرجانا ہے نغمہ سنا کر نور کا
اے خدائے مصطفی دل کو مرے آرام دے
اک شجر جامی کے دل میں ہو تناور نور کا

0
46