ہو نہیں سکتا علم ہر گز خمیدہ نور کا |
نور کی سرکار سے پایا عقیدہ نور کا |
پھوٹ جائے گر تمہیں نا دیکھ پائے چشم نم |
ہے تمہارے دم سے ہی روشن یہ دیدہ نور کا |
اس کی قسمت میں جہنم کا الم لکھا گیا |
تم سے جو نا آشنا ہے نارسیدہ نور کا |
آنکھ والے دیکھتے تھے کل بھی ان کے نور کو |
آج بھی اندھوں سے ہے چہرہ بعیدہ نور کا |
نور کے باغوں میں غنچے نور کے ہیں بے عدد |
چند پھولوں سے مزین ہے قصیدہ نور کا |
لہلہاتے ہی رہیں گے تیرے جھنڈے حشر تک |
ہو نہیں سکتا چمن ہرگز پریدہ نور کا |
نور ہے وہ نور ہے وہ نور ہے وہ نور ہے |
ہاں لباسِ آدمیت ہے چنیدہ نور کا |
زلفِ جانِ رحمتِ عالم پہ قرباں جائیے |
راستہ بتلا رہی ہیں سیدھا سیدھا نور کا |
کون پہنچے اور پہنچ کر پاؤں دھرنے کا کہے |
بارہ برجوں میں پھرایا ہے کشیدہ نور کا |
نور سے آگے نہیں کچھ بھی جو ان کو کہہ سکیں |
سو لقب ہو ہی نہیں سکتا بریدہ نور کا |
جس کو وہ چاہیں گے اس کو بخش ہی دے گا خدا |
کب خدا چاہے گا وہ دل ہو کبیدہ نور کا |
جامی لایا ہے رضا کے باغ سے تازہ گلاب |
رہبری کرتا رہا ہر دم قصیدہ نور کا |
معلومات