تاج والے سب ترے احسان پر موقوف ہے |
تیرا ذکرِ خیر بھی ایمان پر موقوف ہے |
بس میں ہو تو یہ جہاں کیا ہر جہاں میں وار دوں |
ہائے لیکن زور تو اک جان پر موقوف ہے |
کل حقیقت تیری نا جانی کسی بھی فرد نے |
جس نے جو مانا وہ سب عرفان پر موقوف ہے |
یہ اوامر اور نواہی ساختہ ہوتے نہیں |
حکمِ خالق سر بہ سر قرآن پر موقوف ہے |
آکہ مل کر ہم سجائیں ذکرِ حق کی محفلیں |
ذکرِ مولودُ النبی کب آن پر موقوف ہے |
رحمت و برکت کا منبع ہے ربیع النور بھی |
یہ نہ سمجھو صائمو رمضان پر موقوف ہے |
جس کی جو اوقات ہو اتنی خوشی برپا کرے |
جشنِ شہ کب عیش کے سامان پر موقوف ہے |
اے خدا کے فضل کے طالب بس اتنا جان لے |
فضل ذکرِ شاہِ انس و جان پر موقوف ہے |
ذکرِ محبوبِ خدا ہے عین ذکرِ کبریا |
بے نبی ذکرِ خدا نقصان پر موقوف ہے |
لذتِ دنیا سے بڑھ کر لذتِ عشقِ نبی |
یہ وصال و ہجر تو جانان پر موقوف ہے |
جن دلوں میں عشقِ احمد کی کرن مفقود ہے |
ان دلوں کا حال بھی طغیان پر موقوف ہے |
ان کی رحمت فضل و احساں عام ہے سب کے لئے |
کون پاتا ہے اسے انسان پر موقوف ہے |
وہ تو مائل دید پر ہیں دیدہ ور کوئی تو ہو |
ان کے جلوے دیکھنا اوسان پر موقوف ہے |
جنبشِ ابرو سے جل جائیں امیدوں کے چراغ |
بندشِ غم کھولنا مسکان پر موقوف ہے |
اس غبارِ راہ میں ہیں خلد کی سب راحتیں |
دل کی تسکیں عشق کے میزان پر موقوف ہے |
آخرش جائے جہنم میں یا جامی خلد میں |
اس کی مرضی جو کرے رحمٰن پر موقوف ہے |
معلومات