وہی رب ہے جس نے حیاتِ نو بخشی |
قمر کو تجلی مہر کو ضو بخشی |
وہی سب سے اول وہی سب کے آخر |
وہی سب کا باطن وہی سب سے ظاہر |
وہی سب سے پہلا کہ جب کچھ نہیں تھا |
نہ لوح و قلم تھے نہ عرشِ مبیں تھا |
نہ کرسی نہ باد و ابر بیل بوٹے |
نہ قسمت پہ شاکر نہ تقدیر پھوٹے |
مکیں تھے کہیں پر نہ کوئی مکاں تھا |
زمیں تھی بچھونا نہ یہ آسماں تھا |
نہ جلوے مہر کے نہ کرنیں قمر کی |
نہ سناٹے شب کے نہ خوشبو سحر کی |
اجالے ہی تھے نا کہیں تھے اندھیرے |
وہ کنزِ خَفِی تھا نہ تھے اس پہ پہرے |
نہ جنت نہ دوزخ نہ جن تھے نہ انساں |
اگر تھا کوئی تو وہی ایک یزداں |
وہ تنہا تھا ایسا کہ دوجا نہیں تھا |
کسی نے ابھی اس کو پوجا نہیں تھا |
مگر پوجے جانے کے قابل وہی تھا |
تھی مخلوق معدوم جاعل وہی تھا |
ابھی فعل کب تھا مگر وہ تھا فاعل |
ابھی قول کب تھا مگر وہ تھا قائل |
بنی تھی نہ تصویر پر تھا مصور |
کوئی تھی نہ تدبیر پر تھا مدبر |
نہ گم راہ کوئی مگر وہ تھا ہادی |
وہی جس نے کُن سے یہ دنیا بنا دی |
نہ مغضوب ہی تھے ابھی بس غضب تھا |
نہ مربوب پیدا ہوئے تھے کہ رب تھا |
یہاں نا وہاں تھے نہ کون و مکاں تھے |
کہیں نا کہاں تھے نہ نام و نشاں تھے |
جو تنہا زمیں آسماں سب بنائے |
تو پھر کیوں نہ تنہا وہ سب کو چلائے |
اسے کیا ضرورت کسی اور رب کی |
وہ مُت کہہ دے تو جاں نکل جائے سب کی |
اسے کوئی حاجت نہیں ہے جناں کی |
اسے کیا تمنا زمیں آسماں کی |
کہیں کچھ نہیں تھا کہیں کچھ نہیں تھا |
وہی تھا جو خلّاقِ کل عالمیں تھا |
وہ جسم اور تجسیم سے ہے منزہ |
مگر اس کی قدرت مجلیٰ مصفیٰ |
بلا صوت قائل بلا گوش سامع |
بلا دست معطی بلا دست مانع |
بلا چشم سب کی طرف دیکھتا ہے |
وہی رب تعالیٰ ہے سب کا خدا ہے |
قدامت نہ طول ابتدا انتہا ہے |
وہ کیسا ہے یہ تو وہی جانتا ہے |
بقا اس کی بندی فنا اس کی باندی |
عطا اس کی سونا دعا اس کی چاندی |
ارادہ ہے اس کا ہر اک شے پہ غالب |
زمانہ اسی کے ارادے کا طالب |
ارادہ کیا اس نے پہچانے جائیں |
کسی کو تو رب ہونا اپنا دکھائیں |
ہیں معبود ہم ایک عابد بنائیں |
ہیں مسجود ہم ایک ساجد بنائیں |
تجلی سے اپنی وہ گوہر بنایا |
کہ نورِ محمد کا جوہر بنایا |
یہی اس کی تخلیق کی ابتدا ہے |
خدا ہے فقط اور حبیبِ خدا ہے |
ابھی تیسرا اور کوئی نہیں ہے |
خدا ہے جمیل اس کا بندہ حسیں ہے |
وہ حامد خدا کا عبادت عبادت |
وہ ممدوحِ احمد سخاوت سخاوت |
وہ تسبیح و تحمید حمد و ثنا ہے |
خدا کی طرف سے رضا ہی رضا ہے |
وہ تقدیس و تہلیل حمد و تحیت |
ابھی خلوتیں چاہتی ہے مشیت |
وہ عجز و نیازِ حبیبِ مکرم |
یہ رفعت کہ کرتا رہا وہ معظم |
ابھی قول و قائل عدم کے مسافر |
ابھی فعل و فاعل ہیں خلقت سے باہر |
ابھی کب زمانہ کے چال و چلن ہیں |
مدینہ نہیں ہے کہ ماہِ مدن ہیں |
ابھی کیا بشر کیا بَشَرْیت کا چہرہ |
ابھی مصطفائی پہ وحدت کا پہرہ |
ابھی آدمیت نہ تخلیقِ آدم |
ابھی ذاتِ احمد ہے نورِ مجسم |
ابھی جسم و تجسیم سے یہ ورا ہیں |
کہ یہ مظہرِ ذات رب العلیٰ ہیں |
خدا تو نہیں ہیں حبیبِ خدا ہیں |
نہ اس کے شریکی نہ اس سے جدا ہیں |
ادھر ذات حق ہے ادھر نور باری |
عبادت محبت تسلسل سے جاری |
عبادت جو نا مختصر ہو رہی تھی |
وہاں بھی ثنا کی قدر ہو رہی تھی |
یہ خلوت کا عرصہ ہے کتنے برس کا |
برس ہی نہیں تھے بتائے کوئی کیا |
خدا جانتا ہے نبی جانتے ہیں |
وہ جب سے بنے ہیں سبھی جانتے ہیں |
ارادہ یہ فرمایا اب ہوں زمانے |
جو میرے حبیبِ مکرم کو جانے |
وہ لوح و قلم عرش و کرسی و عالم |
نبی کی تجلی سے ہے سارا عالم |
کیا جانا تھا جس کسی کو بھی پیدا |
ہر اک جاں بنا کر خدا نے یہ پوچھا |
کہ یومِ ازل سے ہے موسوم یہ دن |
ہر اک جان حاضر تھی حاضر سے سب جن |
وہ یومِ شہادت جو حق نے پکارا |
بتاؤ تو کیا میں نہیں رب تمہارا |
کہا بس جواباً بلیٰ مصطفیٰ نے |
اسے سن کے باقی تمام انبیاء نے |
یکے بعد دیگر ہر اک نے صدا دی |
ہر اک لب پہ اس دم ندائے بلیٰ تھی |
سبھی کو تھا اقرار تو ہی خدا ہے |
عبادت کے لائق فقط کبریا ہے |
بس اک تو ہی خالق ہے دونوں جہاں کا |
تو ہی رب زمیں کا تو ہی آسماں کا |
سوا تیرے معبود کوئی نہیں ہے |
فقط تیرے موجود کوئی نہیں ہے |
تو اول تو آخر ہے ہم منتشر ہیں |
تو یکتا یگانہ ہے ہم مختصر ہیں |
تو ہر عیب سے پاک بے مثل رب ہے |
ہر اک شے پہ لازم ترا ہی ادب ہے |
تو کونین کن سے بنا دینے والا |
تو مُت سے ہر اک شے مٹا دینے والا |
وجود و عدم کے سب افکار دے کر |
کیا پھر سے معدوم اقرار لے کر |
ابھی وقت تخلیق آیا نہیں تھا |
کہ قالب کسی کا بنایا نہیں تھا |
یہ مجلس عمومی تھی سارے بشر تھے |
ابھی اپنے ہونے سے بھی بے خبر تھے |
ہوئی خلوتوں میں اب اور ایک محفل |
فقط تھے پیمبر یہ تھی نیک محفل |
نبی کا تعارف یہاں ہو رہا تھا |
کہ رمزِ الٰہی عیاں ہو رہا تھا |
یہاں مصطفائی کے جھنڈے گڑے تھے |
پیمبر ادب سے تمامی کھڑے تھے |
یہاں ان کی آمد کا مژدہ سنا کر |
لیا عہد سب انبیاء کو بلا کر |
میں تم کو کتاب اور حکمت بھی دوں گا |
تمہیں اپنی قدرت سے قدرت بھی دوں گا |
بناؤں گا تم کو چراغِ ہدایت |
کہ تم اپنی قوموں پہ ہو میری حجت |
تمہی سے ہدایت کے انوار لے کر |
جو آئے سو آئے مددگار لے کر |
جو تشریف لائے یہ سرتاج خلقت |
تو لازم ہے تم سب پہ اس کی اطاعت |
تمہیں اس پہ ایمان لانا ہے بے شک |
کہ ہر دور اس کا زمانہ ہے بے شک |
ہر اک قوم پر فضل و احسان یہ ہے |
زمانہ جو قالب ہے تو جان یہ ہے |
رعایا ہو تم اور سلطان یہ ہے |
میں رب ہوں تمہارا اور ایمان یہ ہے |
یہ افلاک کی وسعتوں میں ہے احمد |
زمینوں پہ کہلائے گا یہ محمد |
یہ میرا ہے ہر شے اسی کے لئے ہے |
زمانہ اسی کی خوشی کے لئے ہے |
ہے اس کی شناسائی پہچان میری |
اسی میں نظر آئے گی شان میری |
ہمیشہ ہمیشہ اسے یاد کرنا |
یہ تشریف لائے تو امداد کرنا |
اسی کے وسیلہ سے فریاد کرنا |
جو محفل ہو سو ذکر میلاد کرنا |
تم اقرار لاتے ہو کیا اس ضیا کا |
کرو گے تم اکرام کیا مصطفیٰ کا |
جواباً کیا عہد سب انبیاء نے |
کیا ایک دوجے کو شاہد خدا نے |
کہا میں بھی شاہد ہوں تم شاہدوں پر |
گواہی ہے معبود کی عابدوں پر |
وہ یومِ ازل ہو یا میثاق کا دن |
نبی ہی نبی ہے نبی سب کا محسن |
اسی ماہِ کامل سے انوار لے کر |
خدا نے بنائے فرشتوں کے پیکر |
اطاعت کے جوہر سے مقسوم رکھا |
خطا سے ملائک کو معصوم رکھا |
عبادت میں مصروف رہتے ہیں اکثر |
کوئی اس کی منشا سے جائے نہ باہر |
کوئی سر بہ سجدہ تو کوئی کھڑا ہے |
تو کوئی ازل سے جھکا ہی پڑا ہے |
کسی کے ہے ذمے وحی کا لے جانا |
کسی کا وظیفہ نبی کا ترانہ |
کوئی رزق دینے پہ مامور ہوگا |
کوئی اس کی چاہت سے مخمور ہوگا |
کوئی قبر میں پرسشِ حال پر ہے |
تو کوئی نگہ دار اعمال پر ہے |
کوئی خلد کے در پہ دربان بھی ہے |
حوادث میں کوئی نگہبان بھی ہے |
کئی بامِ کعبہ سے لپٹے ہوئے ہیں |
کئی بیتِ معمور سمٹے ہوئے ہیں |
کوئی عرش سے لے کے تحتُ الثریٰ تک |
مکیں تک کوئی ہے تو کوئی مکاں تک |
کوئی ہے معذب تو کوئی ہے مرہم |
کوئی غفلتوں پر ہماری ہے برہم |
مگر کیا مجال اپنی مرضی چلائیں |
خدا کی رضا سے یہ باہر نہ جائیں |
شب و روز ستر ہزار ان کے آکر |
کریں حلقہ دربار میں پر جما کر |
درودیں نچھاور کریں مصطفیٰ پر |
نثاریں سلام اس حبیبِ خدا پر |
اے فخرِ دو عالم سَلَامٌ سَلَاما |
اے نورِ مجسم سَلَامٌ سَلَاما |
اے شمعِ ہدایت سَلَامٌ سَلَاما |
اے تاجِ نبوت سَلَامٌ سَلَاما |
بھلا فیض کس پر نہیں عام تیرا |
کہ قدسی بھی کرتے ہیں اکرام تیرا |
خداوندِ قادر کا فرمانِ برحق |
کلامِ الٰہی ہے قرآنِ برحق |
تجلی ہدایت کی سب کیلئے ہے |
جو اس کیلئے ہے وہ رب کیلئے ہے |
یہ انساں کو انساں بنا دینے والا |
یہ گرتے ہوؤں کو اٹھا دینے والا |
یہ بندے کو رب سے ملا دینے والا |
یہ مردہ دلوں کو جلا دینے والا |
شکستہ امیدوں کی امید جوڑے |
تعلق رسالت سے توحید جوڑے |
وہ خورشید ہے جو افق پر ہے تاباں |
وہ مہتاب ہے جس سے عالم درخشاں |
وہ انوار ہیں جس سے ایمان کامل |
وہ اسرار ہیں جو زمانے کا حاصل |
یہی راہ حق ہے شریعت یہی ہے |
کہ دونوں جہانوں کی دولت یہی ہے |
ہر اک شے کا اس میں مفصل بیاں ہے |
خبر نار کی ہے بیانِ جناں ہے |
نہ اس جیسا کوئی بنانے پہ قادر |
نہ کوئی اک آیت مٹانے پہ قادر |
صحیفہ صحیفہ ہے سینہ بہ سینہ |
خدا کی شناسائی کا ہے خزینہ |
بہت خوبصورت پڑھیں اس کو قاری |
تلاوت ہے اس کی مساجد میں جاری |
کلام اور بھی اس نے بھیجے زمیں پر |
مگر آج ملتے نہیں وہ کہیں پر |
یہ اعجازِ جاری ہے میرے نبی کا |
قیامت تلک سر جھکائے بدی کا |
خدا نے یہ اعجاز ملحوظ رکھا |
یہ پیغامِ آخر تھا محفوظ رکھا |
ہیں بے شک ہدایت کی کرنیں اسی میں |
ابد تک کی سب مشکلیں ہیں اسی میں |
یہ اترا ہے قلبِ حبیبِ خدا پر |
یہ نازل ہوا سیدُ الانبیاء پر |
وہی جس سے تسکین ہے سب دلوں کو |
وہی جس سے رونق ہے ان محفلوں کو |
وہی جس سے عالم میں یہ زندگی ہے |
وہی جس سے گلشن میں تابندگی ہے |
وہی جس کا غازہ یہ مہتاب لے کر |
دمکتا ہے افلاک پر نوری پیکر |
وہی جس کی خاکِ قدم بھی شفا ہے |
وہی جو ہر اک جان کا مدعا ہے |
کہ اصلِ رسالت کا مقصد وہی ہے |
جسے یہ بناتا ہے معبد وہی ہے |
کسی سے بھی ممکن نہیں اس کی عظمت |
یہ مادہ سبھی کا ہے کُل کی حقیقت |
اسی کے ترنم کے سب چہ چہے ہیں |
اسی کے شبستاں کے سب رت جگے ہیں |
اسی کی تجلی سے روشن جناں ہے |
اسی کے کرم سے مکین و مکاں ہے |
ہے چھینٹا یہ کونین اس کی عطا کا |
ہے جلوہ ہر اک سمت نورِ خدا کا |
یہ بزمِ جہاں کی ہے جو رونمائی |
اسی راحتِ قلب کی روشنائی |
ہر اک انجمن میں اجالے اسی کے |
یہ شمس و قمر بھی ہیں پالے اسی کے |
یہ برہان روشن ہے رب العلیٰ کا |
یہ رحمت کا منبع یہ گوہر خدا کا |
یہ رحمت ہے سارے جہانوں کی خاطر |
یہ آیا ہے سارے زمانوں کی خاطر |
یہ انساں کو انسان کرنے کو آیا |
یہ جھولی مرادوں سے بھرنے کو آیا |
یہ اولاد آدم کا سردار بھی ہے |
یہ ابلیس پر رب کی للکار بھی ہے |
یہ ہادی ہے جنات کی رہبری کو |
کہ زیبا یہی سر تو ہے سروری کو |
یہ خود تو سراپا ہے رحمت خدا کی |
یہ تقسیم کرتا ہے نعمت خدا کی |
جسے جو ملا اس کے ہاتھوں ملا ہے |
یہ بابِ سخاوت سبھی پر کھلا ہے |
ہمارے نبی کے بھرے ہیں خزانے |
بنایا ہے مختار اس کو خدا نے |
یہ گیتی پہ جنت بسانے چلا ہے |
یہ بندوں کو رب سے ملانے چلا ہے |
یہ ہم بے کسوں کو اٹھا دینے والا |
یہ عصیاں کے دفتر مٹا دینے والا |
یہ مسجد خدا کی بسا دینے والا |
حرم کی طرف سر جھکا دینے والا |
یہ ڈوبا مہر پھر سے لا دینے والا |
قمر کے دو ٹکڑے بنا دینے والا |
یہ سوکھے شجر کو ہرا کرنے والا |
قدم لا مکاں میں یہی دھرنے والا |
اسی کی ہے عالم میں فرمانروائی |
کرے کون اس کے سوا بادشاہی |
سلامت نبی کا خدا راج رکھے |
تجھے جامی رب اس کا محتاج رکھے |
معلومات