خدا ہے نبی ہے قیامت ہے میں ہوں
شفیع و سخی ہے عدالت ہے میں ہوں
گناہوں سے سارے بھرے ہیں دفاتر
کرم ہے بھرم ہے خجالت ہے میں ہوں
پسِ مرگ کس کو میں آواز دیتا
اندھیری لحد ہے ندامت ہے میں ہوں
کسی شوخ و چنچل کی خواہش نہیں ہے
تمنائے ماہِ رسالت ہے میں ہوں
ترا در سلامت مرے غم کی تسکیں
ہر اک موئے تن پر عنایت ہے میں ہوں
خدا ہے تمہارا تو کیوں ہوں نہ تیرے
کہ تو ہے کرم کی ضمانت ہے میں ہوں
تو چاہے جناں دے کہ چاہے جہنم
ترے دستِ قدرت کی چاہت ہے میں ہوں
جو بھاگا ہوا تھا وہ جامی ہے حاضر
تری بارگاہِ عدالت ہے میں ہوں

0
62