بلا رہے تھے نبی سو شہید ہونا تھا
مئے حبیب لہو سے کشید ہونا تھا
یہ بزم تیری نہیں تھی یہاں سے جانا تھا
حقیقتوں کا تجھے چشم دید ہونا تھا
اگر حیات جو ملتی تو ایک ہی رہتا
مگر تجھے تو جہاں میں مزید ہونا تھا
مرے حضور کی ناموس کے سپاہی سن
مجاہدوں کی تجھے ہی کلید ہونا تھا
عدو حضور کے کانپیں گے نام سے تیرے
خوشا کہ تجھ کو خدا کی وعید ہونا تھا
دلوں کو عشق نبی کا سرور ملتا ہے
ترا بیان خوشی کی نوید ہونا تھا
وہ سرفراز کیا ہے حضور نے تجھ کو
کہ تیرے پیر کو تیرا مرید ہونا تھا
میں جان دے نہیں پایا زبان دیتا ہوں
مرے قلم کو بھی جامیؔ سعید ہونا تھا

0
82