کس کے جلوے نے بنایا ہے نشیمن نور کا
جانِ رحمت کی تجلی سے ہے مسکن نور کا
تذکرہ سرکارِ دو عالم کا اپنا دین ہے
یاد میں ان کی جو گزرے پھر ہے جیون نور کا
لفظ سارے خرچ کرکے بھی تسلّی کیا ملی
دیکھ کر کب چین آئے دل کو جوبن نور کا
تم سے ہی لے کر تجلّی جگمگاتا ہے فلک
اے میں قرباں تیرے ہاتھوں میں ہے معدن نور کا
جیسے دل میں ڈال دی ایمان کی تم نے ضیا
ہو کسی دن تو مرے پیارے یہ آنگن نور کا
کیا گرائے گی شفاعت چاہِ دوزخ میں شہا
کیا جہنم میں کوئی ڈالے گا ایندھن نور کا
مہرِ روزِ حشر کی تابش کا دھڑکا کس لئے
جب ہو داماں عاصیوں پر سایہ افگن نور کا
روضۂ خیر الوری پر جالیاں ہیں نور کی
جلوہ گاہِ نور پر ڈالا ہے چلمن نور کا
جتنا میرا حوصلہ ہے اس قدر عرفان ہو
تیری تابش نا جلا دے میرا خرمن نور کا
ان کے جلوے مانگتے موسیٰ جو کوہِ طور پر
ربِّ اَرْنِی کی قسم ہو جاتا ایمن نور کا
منتظر ہوں کیا عطا ہوتا ہے ان کے جود سے
آج کی شب جوش پر آیا ہے مخزن نور کا
مانا ہے لبریز جامی معصیت کی آگ سے
ٹوٹ جائے نا شفاعت سے یہ بندھن نور کا

0
42