خامشی اتنی مدلل گفتگو ہے دوستوں
جس کے آگے چپ عدو کی پاؤ ہو ہے دوستوں
تم کہ جیسے ڈھول ہو کوئی بجاتا ہو جسے
جان جاؤ رب تمہارے رو برو ہے دوستوں
باپ کا ایسا ادب ہے سامنے بیٹھے ہو چپ
اور اس کا کچھ نہیں جو چار سو ہے دوستوں
میں کہاں باقی رہا ہوں میں فنا کرنے کے بعد
اب تو باقی اس جہاں میں تو ہی تو ہے دوستوں
خون بہہ نکلے تو باقی کیوں وضو رہ جائے گا
پر حسینِ بن علی کا تو وضو ہے دوستوں
کربلا کی خاک یہ خاکِ شفا کیونکر نہ ہو
پی لیا ہے جو نبی کا تو لہو ہے دوستوں
مست ہو جاتا ہوں میں جب یاد آئیں مصطفیٰ
میری مٹی میں اسی کا رنگ و بو ہے دوستوں
ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا جامی فراقِ یار میں
پھر رگِ جاں میں جو اترا ہو بہو ہے دوستوں

0
93