وہ بنجر زمینوں کو شاداب کردے
حقیقت کو چاہے تو اک خواب کردے
وہ چاہے تو سونا گرے آسماں سے
نہ چاہے تو لقمے بھی نایاب کردے
بہاؤ کوئی اشک خوفِ خدا میں
عجب کیا وہ رحمت کا سیلاب کردے
وہ تیرہ شبوں کو اجالوں سے بھر دے
فقیروں کو شاہی کے اسباب کردے
کسی کا جہاں بھر میں کوئی نہیں ہو
وہ اس کا زمانے کو احباب کر دے
اسی مالکِ بحر و بر کی ثنا ہے
جو ذرے کی تابش کو مہتاب کردے

0
58