لیجئے میری خبر اور بے خبر ہو جائیے
آپ سے کس نے کہا تھا پل میں شر ہو جائیے
مشکلوں میں جی کے سیکھا زندگی کا یہ ہنر
قطرہ قطرہ روئیے ہنس کر شکر ہو جائیے
آج کیوں مانے گا کوئی آپ کی تقریر کو
خون دل کا روز کیجئے پھر اثر ہو جائیے
رفتہ رفتہ ہو ہی جائے گی قدر بھی آپ کی
موسمِ تذلیل ہے یہ بے قدر ہو جائیے
کیوں فرشتہ بن کے رہنے کی تمنا پالئے
اس سے پہلے لازمی ہے کچھ بشر ہو جائیے
اپنے رشتے دار تو تم سے پھلا بیٹھے ہیں منھ
اب کہاں پر جائیے شیر و شکر یا جائیے
سر سلامت ہو نہ ہو ایماں سلامت باد ہو
یوں چمکنا چاہتے ہیں ہم قمر ہو جائیے
مٹ کے پاتے ہیں سراغِ زندگی اس راہ میں
دیدئہ حیراں نہ ہو کر دیدہ تر ہو جائیے
ہم نے جانا آدمیت بس اسی کا نام ہے
فائدہ مندی نہ ہو تو بے ضرر ہو جائیے
پھر بلا سے جس طرح زیر و زبر ہو جائیے
ایک ذرہ ہو کے جامی آرزو تو دیکھئے

0
52