تکبیر کے جو نعرے لگاتی ہے شیرنی
بت بت کدوں کے سارے گراتی ہے شیرنی
شاید کہ پھر سے عالمِ اسلام جاگ جائے
تنہا کھڑی ہے اور بلاتی ہے شیرنی
کفار کا ہجوم ہے اور اشتعال ہے
پر خوف کوئی موت سے کھاتی ہے شیرنی
شاباش بنتِ فاطمہ شاباش امِ٘ قوم
ایمان کے چراغ جلاتی ہے شیرنی
مردانِ قوم جوش میں آئے نہیں ہنوز
نرغے میں جیسا جوش دکھاتی ہے شیرنی
مسکان کی یہ جرأتِ اظہار حق کہوں
ایمان کے وہ جذبے جگاتی ہے شیرنی
اسلام کے لہو میں حرارت ہے موجزن
اندھوں کو آئینہ یہ دکھاتی ہے شیرنی
لرزاں ہے کفر ایک ہی نعرہ کی مار سے
دنیا میں جامی دھاک بٹھاتی ہے شیرنی

64