سارے عزیز دوست ملنسار مر گئے
تم کیا گئے کہ سارے طرف دار مر گئے
اپنی خرد کے ساتھ چلے تیرے ہم نشیں
تم سے جو لی تھی فکر وہ افکار مر گئے
میرے خلاف سازشیں جیسے کہ تھم گئیں
وہ کیا مرے کہ سارے ستم گار مر گئے
یونہی رہے گا بے در و دیوار یہ محل
اس شہر کے تو جیسے کہ معمار مر گئے
حاکم نشے میں چور تھا جو اقتدار کے
بھوکے غریب لوگ کئی بار مر گئے
صدقہ کی اب دکان زمانے میں کھل گئی
پھر بھی غریب لوگ مرے یار مر گئے
انصاف ہو رہا تھا بڑی دیر سے یہاں
جو بے گناہ تھے وہ سرِ دار مر گئے
پھیلی ہوئی ہیں چار طرف بے حیائیاں
اس شہر کے تو جیسے حیادار مر گئے
زندہ یہاں ہے کون تماشا لگا ہے بس
دل آج مر گیا ہے تو کل یار مر گئے
ہم سے عبادتوں کی نمائش نہ ہوسکی
زندہ گناہگار خطا کار مر گئے
جامی جو ٹھوکروں میں پڑا ہے تو کیا ہوا
اس کو جو دیکھتے تھے نگہ دار مر گئے

0
60