دن چڑھا میرے نبی کا رات آئی نور کی |
بارھویں کی رات نے دولت لٹائی نور کی |
پھر رہے ہیں حور و غلماں جھلملاتے نور سے |
عالمِ بالا میں پھر محفل سجائی نور کی |
چاند تارے حور و غلماں اور ملائک کا ہجوم |
کر رہے ہیں سب کے سب مدحت سرائی نور کی |
لے رہا ہے پائے اطہر سے لپٹ کر رفعتیں |
عرش کو معلوم ہے ساری خدائی نور کی |
روئے پاکِ مصطفی پر ڈال کر ستر حجاب |
اہل دنیا سے تجلی یوں چھپائی نور کی |
کس کی ہیں محدود آنکھیں ان کے جسمِ ناز تک |
اور کس کی آنکھ پر ہے رونمائی نور کی |
ما سوا جن و بشر سب جانتے ہیں نور کو |
ہے عیاں خلقِ خدا پر مصطفائی نور کی |
آہ ظالم ہے فقط انسان ورنہ تو عیاں |
عالمِ امکاں پہ ہے فرماں روائی نور کی |
مرغ سدرہ کا پہنچنا بھی نہیں ممکن جہاں |
لا مکان و قرب قادر تک رسائی نور کی |
ہائے کیا مانا بشر خیر البشر کو بے ادب |
مانتا جو نور تو ہوتی کمائی نور کی |
عقل و دانش ہی فقط افلاح کو کافی نہیں |
آتشِ عشقِ نبی گر نا لگائی نور کی |
جامی جیسے سینکڑوں کتے دہر کی خاک ہیں |
ان پہ ہی موقوف ہے حاجت روائی نور کی |
معلومات