کوئی نالہ کوئی شکوہ شکایت کیجئے صاحب |
گزارا ہو گیا مشکل بغاوت کیجئے صاحب |
چڑھا کر قوم سولی پر تسلی سے جو سویا ہے |
اسے بیدار کرنے کی حماقت کیجئے صاحب |
جہاں انصاف باندی ہو امیروں کے گھرانوں کی |
وہاں پر پھر کھڑے ہو کر عدالت کیجئے صاحب |
مرے سر کو اڑا دینا جلا دینا مٹا دینا |
مگر اک بار تو شکوے سماعت کیجئے صاحب |
پچھتر سال تک لوٹا گیا چھینا گیا ہم سے |
لٹیروں پر بھی تو کوئی قیامت کیجئے صاحب |
معلومات