بڑی جرأت سے کہتا ہوں یہ حیرانی نہیں جاتی |
دلِ کافر عمل تیری مسلمانی نہیں جاتی |
نہیں بالکل نہیں کلمہ ترے کردار میں شامل |
صداقت کی ضیا پاشی نہیں گفتار میں شامل |
مصفیٰ روح کا جلوہ نہیں بیمار میں شامل |
ہے بس ابلیس کی شوریدگی افکار میں شامل |
مُجَلّٰی اب کہاں نورِ حرم سے تو مبرّا ہے |
تری صورت بھی اہلِ دل سے پہچانی نہیں جاتی |
جہادِ روس رسوا ہے برستے ایسے ہیں گولے |
لہو سے تر زمینیں ہیں گھروں میں آگ کے شعلے |
اٹھانا روز پڑتے ہیں کئی لاشوں بھرے ڈولے |
اب ان حالات میں کوئی اگر بولے تو کیا بولے |
مری ابیات کی چیخیں سنائی کس کو دیتی ہیں |
مری چھوڑو یہاں قرآن کی مانی نہیں جاتی |
مرے والد کے سینے میں کوئی طوفان برپا ہے |
مرے بچوں نے اپنا مسکرانا چھوڑ رکھا ہے |
نجانے کس طرح لوٹوں مری بیوی کو دھڑکا ہے |
مری بہنوں کو میری زندگی سے روز خطرہ ہے |
میں جب تک گھر نہ پہنچوں گا مصلّیٰ پر رہے گی ماں |
مرے بے لوث کنبے کی پریشانی نہیں جاتی |
کبھی احساس نے مارا کبھی زردار نے لوٹا |
کبھی رہبر نے سب چھینا کبھی رہ مار نے لوٹا |
کبھی اسلام کے ہی بھیس میں کفار نے لوٹا |
لگا محصول روٹی پر ہمیں سرکار نے لوٹا |
معمہ یہ ہوا لٹتا رہا بنتا رہا ہوں میں |
قدر میری کسی حاکم سے پہچانی نہیں جاتی |
کسی ماں کے کلیجے میں کوئی خنجر چبھوتا ہے |
کوئی بہنوں کے ارماں کو ندی میں جا ڈبوتا ہے |
ہزاروں بے گناہوں کے لہو سے ہاتھ دھوتا ہے |
ذرا یہ تو بتا ظالم مسلماں ایسا ہوتا ہے |
جسے نو ماہ تک سینچا پڑا ہے خون میں لت پت |
کلیجہ پھٹ نہیں جاتا یہ قربانی نہیں جاتی |
مساجد خون میں ڈوبیں دھماکے سے اڑے منبر |
مزاروں پر ہوئے حملے گرے قدموں میں آکے سر |
وہی خورشید حیراں ہے پڑے ہیں چرخ میں اختر |
یہ کافر ہیں مسلماں ہیں کہے گا کون یہ آکر |
یزیدی ملک میں بے خوف ہوکر دندناتے ہیں |
کبھی شیطان زادوں کی یہ شیطانی نہیں جاتی |
بس اپنی جان کے عیوض ہزاروں جان لے آیا |
میں ننھے ننھے ہونٹوں پر کھلی مسکان لے آیا |
دھماکے سے اڑا کے ساتھ میں قرآن لے آیا |
مرے تھے جس قدر وہ صاحبِ ایمان لے آیا |
وہ جنت کیا ہوئی جس کے مجھے دھوکے میں ڈالا تھا |
بھلا اب کیوں مری آنکھوں سے ویرانی نہیں جاتی |
خدائے لم یزل مسجد تری ویران باقی ہے |
نمازی ہیں گھروں میں ہاتھ میں قرآن باقی ہے |
نہیں ہے پیٹ میں روٹی مگر کچھ جان باقی ہے |
ہے جب تک زندگی میرا یہ پاکستان باقی ہے |
مٹا دے ان درندوں کو نبی کی آل کے صدقے |
کہ تجھ سے رحم کی امید بے معنی نہیں جاتی |
یہ بحرِ بے کنار ایسا لہو کا دہر میں پھیلا |
جنازوں کا تسلسل ملک کے ہر شہر میں پھیلا |
اندھیرا ہی اندھیرا شام میں کیا سحر میں پھیلا |
لہو کا رنگ ہر ندی پہ چھایا بحر میں پھیلا |
کرے گا دست گیری کون جامی ایسے عالم میں |
ہے کوئی جس سے اب بھی خوئے ایمانی نہیں جاتی |
معلومات