مل جائے گر حضور سے قطرہ بچا ہوا
روشن ہو میری آنکھ پہ سارا سنا ہوا
برہم ہیں کیوں مزاج تڑپتا ہے کیوں جگر
گرتا نہیں وہ سر جو اگر ہو جھکا ہوا
یہ دہر بے ثبات ہے اس کو نہیں ثبات
اچھا ہوا کہ اس سے نہیں دل لگا ہوا
جھولی میں اپنے عشق کا ذرہ ہی ڈال دے
پر جوش ہے کرم کا سمندر چڑھا ہوا
دل ہے کہ وہ تلاش میں پھرتا ہے عرش پر
سر ہے کہ بس حضور کے در پر پڑا ہوا
ملتی نہیں ہے شانِ رسالت کی حد کوئی
کونین میں انہیں کا ہے میلہ لگا ہوا
آ دیکھ عرش حق پہ بکھرتا ہے نور نور
کس جا نہیں حضور کا جھنڈا گڑا ہوا
ہم تو فقط حضور کے نقال ہی تو ہیں
حق بندگی کا ہم سے بھلا کب ادا ہوا
یہ مشت خاک پاک کر اے ذات کبریا
مانا کہ ناریوں میں گیا ہوں گنا ہوا
لے کے ہزار جان کروں شکر بے شمار
امت میں تیری نام تھا میرا لکھا ہوا
قیمت خدا کے خلد کی ہاتھوں میں آ گئی
دامانِ مصطفیٰ ہے اگر جو تھما ہوا
ایمان تو حضور بدلنے سے ہے ورا
مومن بدل گیا تو ہوا جو ہوا ہوا
دنیا نے سو رچائیں بگڑنے کی سازشیں
لیکن ہے تیرے جود سے جامی بنا ہوا

0
62