مجھے یقین ہے ان تک بیان پہنچے گا
کوئی مدد کے لئے مہربان پہنچے گا
میں اس نبی کی طرف دیکھتا ہوں حسرت سے
کہ جس کے سامنے سارا جہان پہنچے گا
مری خطاؤں پہ برہم اے قدسیوں ٹھہرو
شفاعتوں کا ابھی گلستان پہنچے گا
مرے حبیب مری ڈھال بن کے آ جائیں
مصیبتوں کا یہاں پر نشان پہنچے گا
حضور آپ کے ہوتے ہوئے بھی تنہا ہوں
مرے لئے نہ مرا خاندان پہنچے گا
اگر جو آپ نے دامن میں لے لیا مجھ کو
نہ تیر پہنچے گا مجھ تک کمان پہنچے گا
حضور مجھ کو فقط آپ سے توقع ہے
درِ حضور سے ہی سائبان پہنچے گا
اگر جو تم نہیں پہنچو گے ہم فقیروں تک
بتاؤ کون بھلا میری جان پہنچے گا
وہ دوڑ کر اسے اپنی امان میں لیں گے
یہ جامی جب بھی وہاں بے امان پہنچے گا
تڑپ رہا ہے اکیلا پڑا ہوا جامی
وہ آتے ہوں گے ابھی کاروان پہنچے گا

0
32