Circle Image

جاوید ڈینی ایل Javaid Daniel

@Tadeeb

مُجھے تُم سے گَر عِشق کافر نہ ہوتا :: غزل تُم نہ ہوتی مَیں شاعر نہ ہوتا

آنکھوں کے خواب قلب کے ارمان جل گئے
نفرت کی تیز آگ میں انسان جل گئے
گرجاؤں میں پڑی ہوئی اِنجیل جل گئی
الطار ، شیرہ ، روٹیاں ، لوبان جل گئے
قائد نے جو کیے تھے وہ اعلان جل گئے
اوراق پاک کیا جلے ، درمان جل گئے

54
خشک پتوں کے جیسے بکھر جائیں گے
تم نہ ہم کو ملے تو کدھر جائیں گے
ساتھ تیرا اگر مل نہ پایا ہمیں
ہم تو جاویدؔ ! جیتے ہی مر جائیں گے

0
30
عشق کی تم سزا نہ دے جانا
زخم کوئی نیا نہ دے جانا

0
34
مِثلِ گل بِکھرنے والا ہوں
مَیں تہِ خاک اُترنے والا ہوں
وہ بھی جاویدؔ ! منتظر ہو گا
جس کو چھُو کے نِکھرنے والا ہوں

0
19
دردِ ایسے چھپائے بیٹھا ہوں
جیسے سب کچھ کمائے بیٹھا ہوں
مَیں رقیبوں کے درمیاں رہ کر
شمع اُس کو بنائے بیٹھا ہوں
سر جھکایا نہیں ہے چوکھٹ پر
آس مَیں بھی لگائے بیٹھا ہوں

32
بے بسی ختم ہو نہیں سکتی
زندگی ختم ہو نہیں سکتی
یاد ایسا چراغ ہے جس کی
روشنی ختم ہو نہیں سکتی
رات دن ساتھ رہتے ہیں پھر بھی
تشنگی ختم ہو نہیں سکتی

28
مرے شعر میں جو خیال ہے
یہ اُسی کا عکسِ جمال ہے
وہ حَسِین ہے یہ بجا مگر
مرا عشق بھی تو کمال ہے
وہ عجیب ہے وہ مشیر ہے
یہ اُسی کا جاہ و جلال ہے

0
86
کسی کو گفتگو کرنے سے پہلے رام کر لینا
ہنر اس کو ہی آتا ہے یہ مشکل کام کر لینا
کسی بے کیف لمحے میں تھکا ہارا بدن تھامے
کبھی جاویدؔ مل جائے تو لطفِ جام کر لینا

63
کوئی قوت طلسماتی کمر جھکنے نہیں دیتی
شگفتہ گفتگو تیری مجھے اُٹھنے نہیں دیتی
سفر جاری ہے جیون کا رہے گا تا ابد جاری
تمہارے وصل کی خواہش مجھے رُکنے نہیں دیتی
بہت سے کام کرنے کے ابھی باقی ہیں دُنیا میں
مگر یہ ہجر کی ساعت مجھے کرنے نہیں دیتی

2
88
مجھ سے اب وہ خفا نہیں ہوتا
کیوں کہ اب رابطہ نہیں ہوتا
رابطہ کرنے کا جو سوچوں مَیں
جانے کیوں حوصلہ نہیں ہوتا
آج بھی اعتبار ہے اُس پر
وہ کبھی بے وفا نہیں ہوتا

3
101
ایسے دِل توڑ کر تو نہ جاتے
اور مُنہ موڑ کر تو نہ جاتے
کاش ہمراہ یادیں لے جاتے!
یوں مجھے چھوڑ کر تو نہ جاتے

43
خون دے کر نکھاریں گے ارضِ وطن
یوں نبھاتے رہیں گے یہ فرضِ وطن
ہم پہ جاویدؔ واجب ہوا یا نہیں !!
مر کے بھی ہم اُتاریں گے قرضِ وطن

78
ہواؤں کو پل میں تھما دینے والا
وہ اپنی کرن سے شفا دینے والا
اگر ڈگمگائیں قدم مومنوں کے
وہی نام ہے حوصلہ دینے والا
بڑھے ہاتھ اُس کا جو پطرس کی جانب
اُسے پانیوں پر ٹِکا دینے والا

68
نیند میں اِک خواب دیکھا گزری شب
خواب میں مہتاب دیکھا گزری شب
ہونٹ رکھے اُس نے پیشانی پہ جب
خود کو آب و تاب دیکھا گزری شب
کھُل گئے مجھ پر رموزِ عاشقی
ایک ایسا باب دیکھا گزری شب

59
اب کے گزری گراں ہے مری گفتگو
جس کو رہتی تھی پل پل مری جستجو
جس کی خاطر بھٹکتا رہا کُو بہ کُو
آج کرتا نہیں مجھ سے وہ گفتگو
اُس کی یادوں میں حالت عجب ہو گئی
جس نے لُوٹا مجھے تھا بہت خُوب رُو

78
ٹمٹماتی رہی چاندنی رات بھر
جگمگاتی رہی چاندنی رات بھر
چاند چلتا بنا جب اُسے چھوڑ کر
پھڑپھڑاتی رہی چاندنی رات بھر
سرد راتوں میں تنہا کسی کے لئے
کپکپاتی رہی چاندنی رات بھر

104
مُجھ سے جو تقصیر ہوئی تھی
وہ میری زنجیر ہوئی تھی
کچھ یادیں اور کچھ کاغذ تھے
جو اپنی جاگیر ہوئی تھی
راکھ ہوئی وہ بستی جس دن
رُوح مری دِل گیر ہوئی تھی

86
رات بھر چاندنی کیوں بھٹکتی رہی
نیند آنکھوں میں آ کر سِسکتی رہی
دے رہا ہے مجھے کون تحفے سدا
سوچ، سوچوں میں میری کھٹکتی رہی
آندھیوں میں مرا گھر نشانہ بنا
میرے گھر پر ہی بجلی کڑکتی رہی

57
کرم اُس کا جو ہر گھڑی چاہیے
رِدائے دُعا بھی بری چاہیے
جو سوچوں کو جیون نیا بخش دے
خیالوں کو اِک پھُل جھڑی چاہیے
بگڑتی ہوئی نسلِ نو کے لیے
حلیمی میں لِپٹی چھڑی چاہیے

93
تُجھ سے ملنے کی ٹھان رکھی ہے
یوں ہتھیلی پہ جان رکھی ہے
خوف کھاتی ہوئی ہوائیں ہیں
اور مَیں نے اُڑان رکھی ہے
ہم ترے ہجر کے ستائے ہیں
تُونے رَہ میں چٹان رکھی ہے

124
یہ مجھ پہ کیسا عذاب ٹوٹا
کہ تجھ سے ملنے کا خواب ٹوٹا
مَیں ایک تارہ ہوں گردشوں میں
فلک سے جیسے شہاب ٹوٹا
ہاں اُس کی خوشبُو بھی بکھری ایسے
کہ جیسے جامِ شراب ٹوٹا

97
وصالِ یار اب تو خواب ہوتا جا رہا ہے
یہ دِل اُس کے لیے بے تاب ہوتا جا رہا ہے
یہ کیسا دشتِ حیرت ہے جہاں ہم آ گئے ہیں
کہ پیاسا دُھوپ میں سیراب ہوتا جا رہا ہے
بہت سے لوگ جائیں گے اُسے اب ڈھونڈ نے کو
وفا کا نام بھی نایاب ہوتا جا رہا ہے

0
82
کون وہم و گماں میں رہتا ہے
ذِکر کس کا بیاں میں رہتا ہے
اب جِسے تُم تلاش کرتے ہو
اب وہی کہکشاں میں رہتا ہے
پاؤں ٹِکتے نہیں زمیں پہ مگر
آدمی آسماں میں رہتا ہے

74
حادثے عجیب تھے
جو مرا نصیب تھے
آج وہ خفا ہوئے
کل مرے قریب تھے
آ گئے گزر کے ہم
راستے مہیب تھے

116
پیار کا اِک جہاں ہو نئے سال میں
ہر بشر شادماں ہو نئے سال میں
برکتیں، نعمتیں بھی برستی رہیں
ہر خوشی بیکراں ہو نئے سال میں
اِس وبائے کرونا کا ہو خاتمہ
زندگی پھر رواں ہو نئے سال میں

122
مُجھے تُم سے گَر عِشق کافر نہ ہوتا
غزل تُم نہ ہوتی، مَیں شاعر نہ ہوتا
مری ذات کی تلخیاں گَر نہ ہوتیں!
وہ گُفتار شیریں کا ماہر نہ ہوتا
بٹھکتا رہا ہجر کی وادیوں میں
وگرنہ کبھی بھی مَیں صابر نہ ہوتا

124
میری غزلوں کے اشعار میں تم ہو
میرے گیتوں کی جھنکار میں تم ہو
صرف تمہی ہو جاوید ! یہ سن لو
میرے وعدوں کے اقرار میں تم ہو

97
ہمیشہ جستجو تیری
مُجھے ہے آرزُو تیری
بھلی لگتی ہے کانوں کو
شگفتہ گفتگو تیری
جِسے خوابوں میں دیکھا تھا
وہ صورت ہو بہو تیری

80
اپنا تن من جلا رہا ہوں مَیں
عشق میں مُبتلا رہا ہوں مَیں
دیکھ بارش کے رُوٹھ جانے پر
کیسے پودے لگا رہا ہوں مَیں
تُونے دیکھا نہیں مری جانب
تیرے دَر پر پڑا رہا ہوں مَیں

165
یہی اُمید ہو جائے
تمہاری دید ہو جائے
کبھی جاویدؔ آئے تو
ہماری عید ہو جائے

64
کبھی لوٹ آئیں بہاروں کے موسم
وہ چاہت کے رنگیں نظاروں کے موسم
بہت یاد آتی ہیں بارش کی راتیں
وہ کاغذ کی ناؤ غباروں کے موسم
وہ بچپن کے دن لوٹ کر کب ہیں آئے
کہاں کھو گئے چاند تاروں کے موسم

0
184
رات کے اندھیروں میں ناچتی ہے چاندنی
پُو جو پھُوٹنے لگے بھاگتی ہے چاندنی
دیکھتا ہے جس طرح چھُپ کے کوئی دِلرُبا
نیم وا دریچوں سے جھانکتی ہے چاندنی
دھڑکنوں کی تھاپ پر چاندنی ہے رقص میں
رات کے سکوت میں ہانپتی ہے چاندنی

93
عشق ہے یا بلا ہے کیا کہیے
ضبط کی انتہا ہے کیا کہیے
اُس کی آنکھوں کی نیم خوابی میں
درد ہے رت جگا ہے کیا کہیے
گونجتی ہے جو اب بھی کانوں میں
میرے دل کی صدا ہے کیا کہیے

2
206
عجب ہے فطرتِ آدم کہ یہ اِمکان ہوتا ہے
کبھی اِنسان ہوتا ہے ، کبھی حیوان ہوتا ہے
زمیں کو روند جاتا ہے ، یہ جب سُلطان ہوتا ہے
درندہ بن کے بھی یہ صورتِ اِنسان ہوتا ہے
کبھی عورت کی حُرمت کا یہی دربان ہوتا ہے
کبھی وحشت کے پردے میں یہی شیطان ہوتا ہے

83
اپنے گھر سے وطن سے وفا کیجئے
اَمن ہو قریہ قریہ دُعا کیجئے
جس سے مٹنے لگیں نفرتیں چار سُو
کام کوئی تو ایسا نیا کیجئے
پھول کلیاں سبھی مسکراتی رہیں
پیدا ایسی وطن میں فضا کیجئے

141
چھوڑ جاؤں گا تمہارے درمیاں
تلخ و شیریں زندگی کی داستاں
مجھ کو قسمت کا ستارہ نہ ملا
کیسے لا دیتا مَیں تجھ کو کہکشاں
ایک تنہا چاند شب کی گود میں
بھر رہا ہے آج بھی وہ سسکیاں

3
284
راستی پہچان ہونی چاہیے
صورتِ ایمان ہونی چاہیے
صبحِ نو تخلیق کرنے کے لئے
مشعلِ عرفان ہونی چاہیے
پارسا ہونے سے پہلے سوچ لے
خصلتِ انسان ہونی چاہیے

192