اپنا تن من جلا رہا ہوں مَیں
عشق میں مُبتلا رہا ہوں مَیں
دیکھ بارش کے رُوٹھ جانے پر
کیسے پودے لگا رہا ہوں مَیں
تُونے دیکھا نہیں مری جانب
تیرے دَر پر پڑا رہا ہوں مَیں
خواب کرچی جو کر دیئے تُونے
کرچی کرچی اُٹھا رہا ہوں مَیں
مَیں محبت میں چوٹ کھائے ہوئے
لب سیے مُسکرا رہا ہوں مَیں
پڑھ کے مدت کے بعد خط تیرے
ان سے پھر حَظ اُٹھا رہا ہوں مَیں
بوجھ جاویدؔ اُترتا جاتا ہے
نظم ایسی سُنا رہا ہوں مَیں

166