کوئی تقصیر ہوتی جا رہی ہے
کہ وہ دِل گیر ہوتی جا رہی ہے
مَیں حرفوں کو سمیٹے جا رہا ہوں
تِری تصویر ہوتی جا رہی ہے
کہانی اَن کہی تھی جو ہماری
وہی تحریر ہوتی جا رہی ہے
جو خوابوں میں رہی تصویر تیری
وہی تعبیر ہوتی جا رہی ہے
لبوں پر شعلہ جیسے رکھ دیا ہو
دُعا اِکسیر ہوتی جا رہی ہے
تِری چشمِ ضیا سے آج میری
یہ شب تنویر ہوتی جا رہی ہے
ہوا بھی نام تیرا گنگنائے
تِری توقیر ہوتی جا رہی ہے
تِری باتیں صحیفوں کی طرح ہیں
مِری تطہیر ہوتی جا رہی ہے
اُسے جاویدؔ ! کیسے مَیں بتاؤں ؟
مِری تقدیر ہوتی جا رہی ہے

0
27