رات بھر چاندنی کیوں بھٹکتی رہی
نیند آنکھوں میں آ کر سِسکتی رہی
دے رہا ہے مجھے کون تحفے سدا
سوچ، سوچوں میں میری کھٹکتی رہی
آندھیوں میں مرا گھر نشانہ بنا
میرے گھر پر ہی بجلی کڑکتی رہی
ایک اِلزام نے سر اُٹھایا بہت
ایک تلوار سر پر لٹکتی رہی
آسماں ہی گِرا نہ زمیں ہی پھٹی
ایک حوا کی بیٹی سِسکتی رہی
اور وہ فاختہ جس کے پَر کٹ گئے
اُڑ سکی نہ کبھی بس پھڑکتی رہی
وہ پلٹ کر تو جاویدؔ آیا نہیں
آتشِ عشق تن میں بھڑکتی رہی

117