دردِ ایسے چھپائے بیٹھا ہوں
جیسے سب کچھ کمائے بیٹھا ہوں
مَیں رقیبوں کے درمیاں رہ کر
شمع اُس کو بنائے بیٹھا ہوں
سر جھکایا نہیں ہے چوکھٹ پر
آس مَیں بھی لگائے بیٹھا ہوں
وہ حقیقت میں ڈھال سکتا ہے
جو تصور بنائے بیٹھا ہوں
مجھ پہ سکتہ نہیں ، مَیں آنکھوں میں
اُس کی صورت سجائے بیٹھا ہوں
بات سچ ہے کوئی کسی کا نہیں
میں تو پھر بھی نبھائے بیٹھا ہوں
میں بھی جاویدؔ ! دیکھ کر دُنیا
چاک دامن بچائے بیٹھا ہوں

51