یہ مجھ پہ کیسا عذاب ٹوٹا |
کہ تجھ سے ملنے کا خواب ٹوٹا |
مَیں ایک تارہ ہوں گردشوں میں |
فلک سے جیسے شہاب ٹوٹا |
ہاں اُس کی خوشبُو بھی بکھری ایسے |
کہ جیسے جامِ شراب ٹوٹا |
جہاں سے کوئی گزر گیا ہے |
کہ جیسے کوئی حباب ٹوٹا |
ہر ایک جانب ہے پانی پانی |
کہ آج سحرِ سحاب ٹوٹا |
وہ ملنے آیا ہے کھُل کھُلا کے |
بلآخر اُس کا حجاب ٹوٹا |
عجب ہے جاویدؔ روشنی سی |
کسی کا بندِ نقاب ٹوٹا |
معلومات