بے بسی ختم ہو نہیں سکتی
زندگی ختم ہو نہیں سکتی
یاد ایسا چراغ ہے جس کی
روشنی ختم ہو نہیں سکتی
رات دن ساتھ رہتے ہیں پھر بھی
تشنگی ختم ہو نہیں سکتی
ایسا اجداد نے کیا کیا ہے
دشمنی ختم ہو نہیں سکتی
ہم نے چاہا اُسے مگر اُس کی
بے رُخی ختم ہو نہیں سکتی
حسن باقی ہے جب تلک یارو
شاعری ختم ہو نہیں سکتی
ہم نے جاویدؔ! دل لگایا ہے
دوستی ختم ہو نہیں سکتی

74