ہر اک خیال کی تجوید کر کے دیکھیں گے
وصالِ یار کی اُمید کر کے دیکھیں گے
چراغ ہم نے جلایا جو اُس کی یادوں کا
اُسی چراغ کو خورشید کر کے دیکھیں گے
رموزِ عاشقی سے گرچہ وہ نہیں واقف
چلو اُسے بھی یہ تاکید کر کے دیکھیں گے
بھلا کے تلخیاں وہ ساری اپنے ماضی کی
یوں اپنے پیار کی تجدید کر کے دیکھیں گے
چلا رہا تھا جو آنکھوں سے تیر و نشتر وہ
اُسی کے وار پہ تنقید کر کے دیکھیں گے
کوئی تضاد نہیں قول و فعل میں جس کے
ہم ایسے شخص کی تقلید کر کے دیکھیں گے
ہمیں یقین ہے جاویدؔ لوٹ آئے گا
سو اُس کے وعدوں کو تمہید کر کے دیکھیں گے
*******

0
48