کون وہم و گماں میں رہتا ہے |
ذِکر کس کا بیاں میں رہتا ہے |
اب جِسے تُم تلاش کرتے ہو |
اب وہی کہکشاں میں رہتا ہے |
پاؤں ٹِکتے نہیں زمیں پہ مگر |
آدمی آسماں میں رہتا ہے |
زخم دیتا ہے روز و شب گویا |
تیر جب تک کماں میں رہتا ہے |
اُس کو جاویدؔ بس یہی کہنا |
دِل اُسی کے مکاں میں رہتا ہے |
معلومات