کون وہم و گماں میں رہتا ہے
ذِکر کس کا بیاں میں رہتا ہے
اب جِسے تُم تلاش کرتے ہو
اب وہی کہکشاں میں رہتا ہے
پاؤں ٹِکتے نہیں زمیں پہ مگر
آدمی آسماں میں رہتا ہے
زخم دیتا ہے روز و شب گویا
تیر جب تک کماں میں رہتا ہے
اُس کو جاویدؔ بس یہی کہنا
دِل اُسی کے مکاں میں رہتا ہے

95