حادثے عجیب تھے
جو مرا نصیب تھے
آ کیوں وہ دُور ہیں
کل مرے قریب تھے
آ گئے گزر کے ہم
راستے مہیب تھے
گھر مرا جلا گئے
جو مرے حبیب تھے
راہ سے بھٹک گئے
وہ بھی کیا خطیب تھے
چل پڑے تھے بے خبر
راستے صلیب تھے
مَیں مریضِ عشق تھا
وہ مرے طبیب تھے
چھُو گئے جو رفعتیں
وہ سبھی غریب تھے
مجھ کو جن پہ ناز تھا
ہم سُخن، ادیب تھے

143