چھوڑ جاؤں گا تمہارے درمیاں
تلخ و شیریں زندگی کی داستاں
مجھ کو قسمت کا ستارہ نہ ملا
کیسے لا دیتا مَیں تجھ کو کہکشاں
ایک تنہا چاند شب کی گود میں
بھر رہا ہے آج بھی وہ سسکیاں
وصل کے وہ سلسلے بھی نہ رہے
فاصلے ہی فاصلے ہیں درمیاں
کانچ کی چوڑی کے ٹکڑوں میں چھپی
عشقِ کم سن کی سُہانی داستاں
چار سُو پھیلی ہے نفرت کی فضا
خالی ہوتے جا رہے ہیں آشیاں
مجھ کو بخشیں ہیں یہ جس نے رفعتیں
دو جہانوں میں وہی ہے جاوداں
جب سراپا دیکھتا ہوں مَیں ترا
سوچتا ہوں تُو کہاں اور مَیں کہاں
زندگی تو بس یہی جاویدؔ ہے !
تُند موجوں کے مقابل بادباں

3
315
بہت خوب محترم جاوید صاحب... بہت ہی خوب...
جیتے رہیں، خوش رہیں...
اور لکھتے رہیں...
یونہی...
سدا..

عمدہ غزل ۔ بہت خوب ۔

بہت خوب جناب