آنکھوں کے خواب قلب کے ارمان جل گئے
نفرت کی تیز آگ میں انسان جل گئے
گرجاؤں میں پڑی ہوئی اِنجیل جل گئی
الطار ، شیرہ ، روٹیاں ، لوبان جل گئے
قائد نے جو کیے تھے وہ اعلان جل گئے
اوراق پاک کیا جلے ، درمان جل گئے
لکھے تھے جو وطن سے محبت کے نام پر
میری بیاض کے سبھی عنوان جل گئے
اس شہرِ بے ضمیر کا ایمان تھا کہاں؟
مذہب کے نام پر کئی فرمان جل گئے
حسرت بھری نگاہ سے اب دیکھتا ہوں مَیں
ہم نے کیے تھے تم پہ جو احسان جل گئے
جاوید ؔ ! کس کو درد کا قصہ سنائیں ہم
عجز و خلوص و مہر کے امکان جل گئے

69