عجب تماشا سا چل رہا ہے
غریب ہاتھوں کو مل رہا ہے
پنپ رہی ہے منافقت بھی
عروج پستی میں ڈھل رہا ہے
اِسی لیے تو وہ مر رہا ہے!
حسد کی بھٹی میں جل رہا ہے
یہ کون تاریخ کو بدل کے
ہمارا چہرہ مسل رہا ہے
کسی کو بے جا صلیب دینا
یہ کام صدیوں سے چل رہا ہے
وہ کہہ رہا ہے اُسی کو کافر
کہ جس کے ٹکڑوں پہ پل رہا ہے
لُٹا کے تن من گنوا کے حرمت
وہ رفتہ رفتہ سنبھل رہا ہے
رہو گے خاموش تو مرو گے
یہ فیصلہ تو اٹل رہا ہے
اُسی کے جاویدؔ شر سے بچنا
جو آستینوں میں پل رہا ہے
*******

36