خوابوں میں جب آئے وہ
غزلیں میری گائے وہ
دیکھ کے مجھ کو کھڑکی سے
اپنا ہاتھ ہلائے وہ
کاش کہ بھیگے موسم میں
نغمہ کوئی سنائے وہ
آ کے میری بانہوں میں
اتنا کیوں شرمائے وہ
میں ہوں اُس کا ہم راہی
جانے کیوں گھبرائے وہ
کاش اندھیری راتوں میں
تارہ ہی بن جائے وہ
چھت پر بیٹھا سوچوں مَیں
نکلے چاند جو آئے وہ
برکھا رُت چھا جاتی ہے
گیسو جب لہرائے وہ
مجھ میں ایسا کیا ہے جو
مجھ کو بھول نہ پائے وہ
یاد بہت وہ آتا ہے
جا کر دیس پرائے وہ
اپنا در جاویدؔ ! کھُلا
جب جی چاہے آئے وہ

15