مجھ سے اب وہ خفا نہیں ہوتا
کیوں کہ اب رابطہ نہیں ہوتا
دِل مچلتا ہے بات کرنے کو
جانے کیوں حوصلہ نہیں ہوتا
آج بھی اعتبار ہے اُس پر
وہ کبھی بے وفا نہیں ہوتا
پتھروں میں تلاش ناممکن
کوئی پتھر خدا نہیں ہوتا
اس کے ابرو ہیں تیز تلواریں
اب کسی کا بھلا نہیں ہوتا
عشق میں واپسی نہیں ہوتی
اور کوئی راستہ نہیں ہوتا
جیسے وہ چھوڑ کر گیا مجھ کو
کوئی ایسے جدا نہیں ہوتا
اب تو جینا محال لگتا ہے
جانے کیوں حادثہ نہیں ہوتا
اُس کو جاویدؔ کون سمجھائے
عشق میں سب روا نہیں ہوتا

4
169
مطلع کمال ہے۔

بہت شکریہ ۔ سلامت رہیں

0
ہو زورِ قلم اور زیادہ

بہت شکریہ ۔ سلامت رہیں

0