مجھ سے اب وہ خفا نہیں ہوتا
کیوں کہ اب رابطہ نہیں ہوتا
رابطہ کرنے کا جو سوچوں مَیں
جانے کیوں حوصلہ نہیں ہوتا
آج بھی اعتبار ہے اُس پر
وہ کبھی بے وفا نہیں ہوتا
اس کے ابرو ہیں تیز تلواریں
اب کسی کا بھلا نہیں ہوتا
عشق میں واپسی نہیں ہوتی
اور کوئی راستہ نہیں ہوتا
جیسے وہ چھوڑ کر گیا مجھ کو
کوئی ایسے جدا نہیں ہوتا
اُس کو جاویدؔ کون سمجھائے
عشق میں سب روا نہیں ہوتا

3
104
مطلع کمال ہے۔

بہت شکریہ ۔ سلامت رہیں

0
ہو زورِ قلم اور زیادہ