سامنے جب صلیب ہوتی ہے
دِل کو راحت نصیب ہوتی ہے
وہ ہی مجھ کو سنبھال لیتا ہے
موت جب بھی قریب ہوتی ہے
جس کو اُلفت کسی سے ہو جائے
اُس کی دنیا رقیب ہوتی ہے
جس کے دَم سے مری یہ دنیا ہے
اِک وہ ہستی مُنیب ہوتی ہے
درد رکھتا ہے جو زمانے کا
سوچ اُس کی عجیب ہوتی ہے
جان جاتا ہے راز باطن کے
آنکھ جس کی ادیب ہوتی ہے
ہم کو جاویدؔ ! سچ ہی لگتا ہے
عشق کی رَہ مہیب ہوتی ہے

0
4