رات کے اندھیروں میں ناچتی ہے چاندنی
پُو جو پھُوٹنے لگے بھاگتی ہے چاندنی
دیکھتا ہے جس طرح چھُپ کے کوئی دِلرُبا
نیم وا دریچوں سے جھانکتی ہے چاندنی
دھڑکنوں کی تھاپ پر چاندنی ہے رقص میں
رات کے سکوت میں ہانپتی ہے چاندنی
اِس جہاں سے بے خبر، بے خودی میں رات بھر
میری بے بسی پہ کیوں ناچتی ہے چاندنی
ہجرتوں کے شہر میں رَتجگوں کے قہر میں
سولیوں پہ کیوں مجھے ٹانکتی ہے چاندنی
حرف حرف روشنی مانگتا ہوں رب سے مَیں
جیسے آفتاب سے مانگتی ہے چاندنی
اُس کو بھولنے کا جاویدؔ سوچ لے کبھی
اُس کو بھُول جانے سے روکتی ہے چاندنی

93