| عجب ہے فطرتِ آدم کہ یہ اِمکان ہوتا ہے |
| کبھی اِنسان ہوتا ہے ، کبھی حیوان ہوتا ہے |
| زمیں کو روند جاتا ہے ، یہ جب سُلطان ہوتا ہے |
| درندہ بن کے بھی یہ صورتِ اِنسان ہوتا ہے |
| کبھی عورت کی حُرمت کا یہی دربان ہوتا ہے |
| کبھی وحشت کے پردے میں یہی شیطان ہوتا ہے |
| یہ جیتا سب کی خاطر ہے تبھی ہلکان ہوتا ہے |
| نہ جانے پھر بھی کیوں؟ آخر یہی نادان ہوتا ہے |
| محبت ہی عبادت ہے یہ جب ایمان ہوتا ہے |
| خودی کو مارتا ہے پھر اسے عرفان ہوتا ہے |
| شبیہِ قادرِ مطلق پہ جب ایقان ہوتا ہے |
| مقامِ منزلِ جاویدؔ پر ذِی شان ہوتا ہے |
معلومات