| تُجھ سے ملنے کی ٹھان رکھی ہے |
| یوں ہتھیلی پہ جان رکھی ہے |
| خوف کھاتی ہوئی ہوائیں ہیں |
| اور مَیں نے اُڑان رکھی ہے |
| ہم ترے ہجر کے ستائے ہیں |
| تُونے رَہ میں چٹان رکھی ہے |
| یہ غنیمت ہے زندگی نے ابھی |
| دِل کی دھڑکن جوان رکھی ہے |
| جی رہا ہوں تمہاری یادوں نے |
| مُجھ پہ چادر سی تھان رکھی ہے |
| ہم نے اِس عہدِ بے ضمیری میں |
| اپنے حصے کی آن رکھی ہے |
| تُم بھی جاویدؔ دِل کے سادہ ہو |
| اُس کی ہر بات مان رکھی ہے |
معلومات