تُجھ سے ملنے کی ٹھان رکھی ہے
یوں ہتھیلی پہ جان رکھی ہے
خوف کھاتی ہوئی ہوائیں ہیں
اور مَیں نے اُڑان رکھی ہے
ہم ترے ہجر کے ستائے ہیں
تُونے رَہ میں چٹان رکھی ہے
یہ غنیمت ہے زندگی نے ابھی
دِل کی دھڑکن جوان رکھی ہے
جی رہا ہوں تمہاری یادوں نے
مُجھ پہ چادر سی تھان رکھی ہے
ہم نے اِس عہدِ بے ضمیری میں
اپنے حصے کی آن رکھی ہے
تُم بھی جاویدؔ دِل کے سادہ ہو
اُس کی ہر بات مان رکھی ہے

124