| وصالِ یار اب تو خواب ہوتا جا رہا ہے |
| یہ دِل اُس کے لیے بے تاب ہوتا جا رہا ہے |
| یہ کیسا دشتِ حیرت ہے جہاں ہم آ گئے ہیں |
| کہ پیاسا دُھوپ میں سیراب ہوتا جا رہا ہے |
| بہت سے لوگ جائیں گے اُسے اب ڈھونڈ نے کو |
| وفا کا نام بھی نایاب ہوتا جا رہا ہے |
| مجھے اِس عہد کا سُقراط سمجھا جا رہا ہے! |
| کہ ہر اِک جام اب زَہراب ہوتا جا رہا ہے |
| نجانے کب تلک یونہی قرنطینہ رہے گا؟ |
| رقم جاویدؔ ! پھر اِک باب ہوتا جا رہا ہے |
معلومات