نیند میں اِک خواب دیکھا گزری شب
خواب میں مہتاب دیکھا گزری شب
ہونٹ رکھے اُس نے پیشانی پہ جب
خود کو آب و تاب دیکھا گزری شب
کھُل گئے مجھ پر رموزِ عاشقی
ایک ایسا باب دیکھا گزری شب
جو سوالِ وصل پر برہم تھا کل
اِس قدر بے تاب دیکھا گزری شب
ایسا کوئی اور مل سکتا نہیں
اِک دُرِ نایاب دیکھا گزری شب
سُن کے سچی بات پھر جاویدؔ اُسے
کھاتے پیچ و تاب دیکھا گزری شب

74