کرم اُس کا جو ہر گھڑی چاہیے
رِدائے دُعا بھی بری چاہیے
جو سوچوں کو جیون نیا بخش دے
خیالوں کی اِک پھُل جھڑی چاہیے
بگڑتی ہوئی نسلِ نو کے لیے
حلیمی میں لِپٹی چھڑی چاہیے
حقیقت یہی ہے کہ اِس دَور میں
خُدا کی سِپر ہر گھڑی چاہیے
مرے حکمراں کو خُوشی کے لیے
مرے آنسوؤں کی جھڑی چاہیے
محبت میں گھائل ہے جاویدؔ جو
اُسے اب سزا بھی کڑی چاہیے

110