Circle Image

عبدالقادر خان

@aqadirk

ادا سے رجھانے کی کوشش نہ کرنا
مرا دل چرانے کی کوشش نہ کرنا
حسینوں پہ کرنا کبھی مت بھروسا
نصیب آزمانے کی کوشش نہ کرنا
لگانا نہ دل تم کسی نازنیں سے
دل و جاں لٹانے کی کوشش نہ کرنا

0
2
کیسے کروں نماز ادا میں نشے میں ہوں
سب دیکھتا ہے میرا خدا میں نشے میں ہوں
ساقی نہ ہو تو مجھ سے خفا میں نشے میں ہوں
مجھ کو نہیں ہے ہوش ذرا میں نشے میں ہوں
جب سے ہوا ہوں تم سے جدا میں نشے میں ہوں
یہ زندگی ہے ایک سزا میں نشے میں ہوں

0
6
سوکھ کر جو کبھی جھڑا ہی نہیں
پھول ایسا کوئی کھلا ہی نہیں
گھر میں اپنے ہے آئینہ ہی نہیں
آجکل خود سے رابطہ ہی نہیں
پڑھ رہا ہوں قضاۓ عمری یوں
آ نہ جاۓ کہیں قضا ہی نہیں

0
7
ساقی دو جام اور پلا میں نشے میں ہوں
ٹوٹے نہ دیکھ میرا نشہ میں نشے میں ہوں
کرتے رہو برا یا بھلا میں نشے میں ہوں
اب جانے کیا مری ہے بلا میں نشے میں ہوں
شاید کہ میرے غم کی دوا بے خودی ہی ہے
جب سے ملی ہے غم کی دوا میں نشے میں ہوں

0
5
ہر وقت ہم اداس ہیں دلگیر ہر جگہ
چلتی ہے ساتھ شومیٔ تقدیر ہر جگہ
​​کر صبر ہر مقام پہ رکھ دِھیر ہر جگہ
انسان کم زیادہ ہیں خنزیر ہر جگہ
انصاف کچھ کسی نہ عدالت سے مل سکا
کھینچی تھی ہم نے عدل کی زنجیر ہر جگہ

0
3
محفل میں آۓ ہیں وہ یوں زلفیں سنوار کے
ٹکڑے ہوۓ ہزار دلِ بے قرار کے
نکلا جو دن تو گریۂ شبنم بھی رک گیا
آئی خزاں تو دن گۓ فصلِ بہار کے
پایا اسے بھی ہم نے تو مانندِ اک سراب
چرچے سنے تھے ہم نے بہت حسنِ یار کے

0
3
جام ساقی تو کر شمار نہیں
بے خودی ہے مجھے خمار نہیں
درِ مے خانہ کھول دے ساقی
بے قراروں کو ہے قرار نہیں
زندگی ایسا ہے چمن جس میں
ہر گھڑی موسمِ بہار نہیں

0
4
حسینوں کو محبت میں خفا میں کر نہیں سکتا
کسی کو بھی کبھی دل سے جدا میں کر نہیں سکتا
بجز کچھ اور بس صبر و رضا میں کر نہیں سکتا
وفا تم کر نہیں سکتے جفا میں کر نہیں سکتا
حسینوں کے ہر اک جلوے کا دل مقروض ہے لیکن
لۓ ہیں قرض ہی اتنے ادا میں کر نہیں سکتا

0
5
ہے راہ عشق کی بڑی پر خار دیکھ کر
رکھنا قدم اگر تو خبردار دیکھ کر
تیرا حسیں یہ رخ لب و رخسار دیکھ کر
ہو جاؤں میں کہیں نہ خطاوار دیکھ کر
ہوتیں محبتوں میں ہیں اکثر رقابتیں
جلتے ہیں لوگ مجھ سے ترا پیار دیکھ کر

0
7
صدیاں گزر گئیں ہیں ترے انتظار میں
آئی کمی مگر نہ کبھی اعتبار میں
وہ جو قفس میں ہیں انہیں معلوم کیا بھلا
کیسے چمن میں پھول کھلے ہیں بہار میں
ہانکیں ہیں سب کو ایک ہی لاٹھی سے وہ عدو
تو کس شمار میں ہے کہ میں کس شمار میں

0
11
اک نواۓ بے نوا ہوں غم کا افسانہ ہوں میں
ہوش سے خالی ہے دامن خود سے بیگانہ ہوں میں
بزم میں جاتا اگرچہ ان کی روزانہ ہوں میں
جانتے مجھ کو نہیں وہ جن کا دیوانہ ہوں میں
جل بجھا ہوں اپنے ہی بس میں تو سوزِ عشق سے
شمع کے بن جل گیا جو ایک پروانہ ہوں میں

0
7
لگتی ہے اپنی اجنبی صورت بہت مجھے
دیکھا جو آئینہ ہوئی حیرت بہت مجھے
آتے ہیں یوں تو ذہن میں دو چار مشغلے
کرلوں نہ عشق ہی کہ ہے فرصت بہت مجھے
آنکھوں میں اشک داغ جگر دل پہ زخم ہیں
بخشی ہے تیرے عشق نے دولت بہت مجھے

10
جب سے ہوئی ہے آپ سے الفت بہت مجھے
ملتی ہے زخم چھیڑ کے لذت بہت مجھے
ہر چند بن بلاۓ چلا آیا تھا مگر
محفل میں آپ کی ملی عزت بہت مجھے
اترے ہے پورا کب گو توقع پہ ہر کوئی
ملنے کی آپ سے تھی کہ حسرت بہت مجھے

0
6
کوئی آۓ بن کے متاعِ جاں مری زندگی میں کوئی خوشی
کوئی اجنبی کوئی مہرباں مری زندگی میں کوئی خوشی
مری آرزو ترے بن کہاں مری زندگی میں کوئی خوشی
ہوئی جاگزیں کہ تو ہے جہاں مری زندگی میں کوئی خوشی
مری زندگی کی ہر اک خوشی تو گیا تو ساتھ ہی لے گیا
کہ ہے اب نہ آنے کا بھی گماں مری زندگی میں کوئی خوشی

0
7
آنکھ میں آ گئی نمی ہو گی
اس قدر مل گئی خوشی ہو گی
نہ رہیں ہم تو کیا کمی ہوگی
رقص میں یوں ہی زندگی ہوگی
کب قرار آۓ گا مرے من کو
ختم کب دل کی بے کلی ہوگی

0
6
تیغ ہر دم وہ تان رکھتے ہیں
ہم بھی کیا مہربان رکھتے ہیں
ہم نے مانا کہ تو حسیں ہے مگر
ہم بھی حسنِ بیان رکھتے ہیں
دور ہو جائیں منزلیں تو کیا
حوصلے ہم جوان رکھتے ہیں

0
7
تیغ کیوں آپ تان لیتے ہیں
جو بھی کہتے ہو مان لیتے ہیں
کتنے چالاک حسن والے ہیں
چشم و ابرو سے جان لیتے ہیں
بات لگتی نہیں ہے دل کو مگر
​​تم جو کہتے ہو مان لیتے ہیں

0
4
بڑی خلعت میں پہنایا گیا ہوں
ترے کوچے میں دفنایا گیا ہوں
نشاں دے کر میں بھٹکایا گیا ہوں
تصور دے کے بہلایا گیا ہوں
کبھی مصلوب کر وایا گیا تو
کبھی اینٹوں میں چنوایا گیا ہوں

0
5
یاد بھی آتی تری ہمدم نہیں ہے
اب کوئی اپنا شریکِ غم نہیں ہے
خوش اگر ہیں آپ تو کیا کم نہیں ہے
اپنی بربادی کا ہم کو غم نہیں ہے
خونِ دل اب آنسوؤں میں ضم نہیں ہے
درد بھی سینے میں اب پیہم نہیں ہے

0
5
چند بھولے ہوۓ اسباق ہوں میں
چند بکھرے ہوۓ اوراق ہوں میں
دید کا بس تری مشتاق ہوں میں
تاکنے میں تجھے مشاق ہوں میں
لاغری سے ہوا ناچاق ہوں میں
بید کی طرح سے بس قاق ہوں میں

0
7
چین آۓ نہ ہی قرار مجھے
ہو گیا ہے کسی سے پیار مجھے
آپ اپنی ہی بس تلاش میں ہوں
آپ اپنا ہے انتظار مجھے
یاد آتا ہے تھام کر ساغر
وہ تری آنکھ کا خمار مجھے

0
7
کچھ نہیں اپنا اعتبار مجھے
آپ کا بس ہے انتظار مجھے
بات کہنے میں ہے نہ عار مجھے
روکتا پر ہے انکسار مجھے
دیکھ مت نیم باز آنکھوں سے
ہو نہ جاۓ کہیں خمار مجھے

0
12
سولہ سنگھار کر کے وہ آۓ جو خواب میں
دل بلیوں اچھلنے لگا اضطراب میں
مصروف حسن کے میں رہا انجذاب میں
گزری ہے عمر عشق کے بس اکتساب میں
جل کر مرا تو کیا ہوا پروانہ عشق میں
خود شمع جل رہی ہے اسی التہاب میں

0
15
پڑ گئی کیا غضب افتاد مجھے
کر دیا عشق نے برباد مجھے
میکدے سے ابھی تو لوٹا تھا
لے چلا پھر دلِ ناشاد مجھے
جا رہا تھا میں چمن کی جانب
راہ میں مل گیا صیاد مجھے

0
6
کر گئی تیری یاد اداس مجھے
کوئی خود سے لگا ہے پاس مجھے
جب بھی ہوتا ہوں فکر سے آذاد
باندھ لیتی ہے تیری آس مجھے
اب بھی آتی بدن سے ہے میرے
آپ کے جسم کی بو باس مجھے

0
7
زندگی کے سروں کی لے اپنی
چنگ اپنا ہے ان کا نے اپنی
لے کے پھرتا ہوں سوختہ میں جگر
کر گئی کام اپنا مے اپنی
دسترس اپنی کب وہاں تک ہے
بات ہوتی جہاں ہے طے اپنی

0
6
تم اگرچہ ہو میرے پاس نہیں
کیا سبب ہے کہ دل اداس نہیں
مضمحل ہوں مگر نراس نہیں
خوش نہیں ہوں پہ محوِ یاس نہیں
اس کو طوفان کا ہو کیوں خدشہ
جس کو ساحل کی کوئی آس نہیں

0
7
لے نہیں وہ تال وہ سرگم نہیں ہے
اب تری پایل میں وہ چھم چھم نہیں ہے
دوش پر زلف اپنے اب برہم نہیں ہے
سانس بھی اب سانس میں مدغم نہیں ہے
اب نہیں گرتی کسی دریا میں ندی
اب کسی ساگر میں دریا ضم نہیں ہے

0
9
تخم غم دل میں بو ہی جاتے ہیں
ایسے حالات ہو ہی جاتے ہیں
پیٹ کی آگ بجھ ہی جاتی ہے
نیند آۓ تو سو ہی جاتے ہیں
ہر نفس سینے پر ہے بوجھ مگر
ایک اک کر کے ڈھو ہی جاتے ہیں

0
4
پھر اک چراغِ شوق جلاۓ ہوۓ ہیں ہم
محفل میں آپ کی صنم آۓ ہوۓ ہیں ہم
دو چار ایک ماہ لقا سے ہوئی نظر
اک دلربا سے دل کو لگاۓ ہوۓ ہیں ہم
جو کچھ بھی ہونے والا ہے اس کی خبر نہیں
جو کچھ بھی ہو چکا ہے بھلاۓ ہوۓ ہیں ہم

0
8
کٹنے کو تو زندگی یوں کٹ رہی ہے
ہر لمحہ پر سانس اپنی گھٹ رہی ہے
شب ہے یہ ظلمات کی ڈھلنے والی
ہونے والی صبح ہے پو پھٹ رہی ہے

0
11
چین آتا نہیں ذرا کوئی
زندگی ہے یا اک سزا کوئی
زندگی کے سفر میں تھے تنہا
راہ میں ہم کو مل گیا کوئی
میرے خوابوں کے بارگاہوں میں
رقص کرتی ہے اپسرا کوئی

0
5
مرتے ہیں ان پہ جب ہم سو دل سے اور جاں سے
شکوہ کریں جو ان سے آخر تو کس زباں سے
دو چار ہی نفس ہیں بس زندگی کے باقی
آئیں گے تو ملیں گے وہ عرش آشیاں سے
آۓ یقیں نہ ان کو چاہت کا کیوں ہماری
سو بار ہم ہیں گزرے اس ایک امتحاں سے

0
21
کب تک ڈرے رہیں گے رسوائیوں کے ڈر سے
کچھ تم چلو ادھر سے کچھ ہم چلیں ادھر سے
آتا نہیں ہے کوئی کوچے میں اپنے ڈر سے
ہمت اگر ہے تم میں گزرو کبھی ادھر سے
کچھ اس طرح سے دیدے پھر آج اپنے برسے
سب ایک لگ رہے ہیں ہم کو تو بحر و بر سے

18
اپنے پرانے دل کے نہ اب زخم کھولۓ
مت زندگی میں اپنی یوں ہی زہر گھولۓ
ہونا خفا تھا جتنا خفا آپ ہو لۓ
باہر کھڑا ہوں کب سے میں دروازہ کھولۓ
تاخیر ایک پل کی سزا عمر بھر کی ہے
کھلنے سے پیشتر ہی قفس پر کو تولۓ

0
16
پہلے سے زیادہ ضو فشاں ہونے لگی
جل جل کے شمع اور جواں ہونے لگی
جب سے دیکھا اک بتِ کافر کو ہے
دل کی نیت بے ایماں ہونے لگی

21
اچھا کیا جو پھوٹ کے یوں آپ رو لۓ
جتنے بھی دل کے داغ تھے رو رو کے دھو لۓ
چپ کیوں ہیں اتنے بہر خدا کچھ تو بولئے
کانوں میں اپنے رس تو ذرا آپ گھولۓ
پھر اس ادا پہ کیوں نہیں ہو جائیں ہم فدا
ہو کر خفا وہ کہتے ہیں ہم سے نہ بولۓ

21
سوکھی شاخوں سے جو پتے ٹوٹے
اپنی ہستی کے غم سے وہ چھوٹے
کیسے جڑ پاۓ گا وہ پھر قادر
دل ہی ٹوٹے یا آئینہ ٹوٹے

0
16
دل سے ہم مجبور ہو ہی جاتے ہیں
ان کی آنکھوں میں کھو ہی جاتے ہیں
کتنے آزردہ ہی ہوں ہم لیکن
غم کی چھاؤں میں سو ہی جاتے ہیں

0
15
آ کہ چلنا ہے بس بہت آگے
اے مرے ہم نفس بہت آگے
لاغری سے مری کشادہ ہوا
تنگ تھا یہ قفس بہت آگے
بے دھڑک بند ہو گیا اب دل
کرتا تھا پیش و پس بہت آگے

0
14
سوچتا ہوں بہت کہ کیا ہوں میں
ہوں حقیقت کہ افترا ہوں میں
آپ اپنا ہی نقشِ پا ہوں میں
آپ اپنی ہی اقتدا ہوں میں
سوچتا ہوں تو پس میں ہوں زندہ
ہوں جو زندہ تو سوچتا ہوں میں

0
22
جب بھی ملتے ہیں حسن والے سے
دل سنبھلتا نہیں سنبھالے سے
آپ کی زلف کے حوالے سے
ابر چھاۓ ہیں کالے کالے سے
نین تیرے ہیں مدھ کے پیالے سے
مکھ پہ ہیں چاند جیسے ہالے سے

29
مت سمجھنا مر کر اک دن میں فنا ہو جاؤں گا
زندگی کے قافلے سے بس جدا ہو جاؤں گا
جب حقیقت سے میں اپنی آشنا ہو جاؤں گا
آپ اپنی ہی سمجھ سے ماورا ہو جاؤں گا
مٹ نہیں پاۓ گا دنیا سے کبھی میرا وجود
میں بکھر بھی جو گیا پھر ایک جا ہو جاؤں گا

72