| اک نواۓ بے نوا ہوں غم کا افسانہ ہوں میں |
| ہوش سے خالی ہے دامن خود سے بیگانہ ہوں میں |
| بزم میں جاتا اگرچہ ان کی روزانہ ہوں میں |
| جانتے مجھ کو نہیں وہ جن کا دیوانہ ہوں میں |
| جل بجھا ہوں اپنے ہی بس میں تو سوزِ عشق سے |
| شمع کے بن جل گیا جو ایک پروانہ ہوں میں |
| ماپتے ہیں اپنی اپنی منزلوں کے راستے |
| ایک پیمانہ ہے دل اور ایک پیمانہ ہوں میں |
| بس سکا اب تک اجڑ کر جو نہیں وہ ہوں دیار |
| غم سے جو آباد ہے اک ایسا ویرانہ ہوں میں |
| اپنے اپنے غم ہیں لیکن درد اپنا مشترک |
| میرا افسانہ ہے تو اور تیرا افسانہ ہوں میں |
| شمع کی محفل میں جانے کیوں نہیں دیتے مجھے |
| پر شکستہ ہوں مگر آخر کو پروانہ ہوں میں |
| کچھ نہیں ہے زندگانی اک بجز وہم و گماں |
| کیا ہوا یک لخت پھر جو خود سے بیگانہ ہوں میں |
| کم نگاہی تو مری اس بے خودی کو مت سمجھ |
| آہوۓ صیاد دیدہ رندِ مستانہ ہوں میں |
معلومات