| پھر اک چراغِ شوق جلاۓ ہوۓ ہیں ہم |
| محفل میں آپ کی صنم آۓ ہوۓ ہیں ہم |
| دو چار ایک ماہ لقا سے ہوئی نظر |
| اک دلربا سے دل کو لگاۓ ہوۓ ہیں ہم |
| جو کچھ بھی ہونے والا ہے اس کی خبر نہیں |
| جو کچھ بھی ہو چکا ہے بھلاۓ ہوۓ ہیں ہم |
| درپے ہیں توڑنے کے جسے آپ اے صنم |
| اس دل میں ایک بزم سجاۓ ہوۓ ہیں ہم |
| کل رات بے خودی میں خدا جانے کیا ہوا |
| اک دوسرے سے نظریں چراۓ ہوۓ ہیں ہم |
| ہم کیا کسی کو اپنا بنائیں گے اے حضور |
| خود اپنی ہی نظر میں پراۓ ہوۓ ہیں ہم |
| کیوں پاؤں دھنس نہ جائیں زمیں میں ہمارے پھر |
| کاندھوں پہ دو فرشتے اٹھاۓ ہوۓ ہیں ہم |
| مدت سے ایک تیرے صنم انتظار میں |
| راہوں میں تیری پلکیں بچھاۓ ہوۓ ہیں ہم |
| کی آ کے ہم نے خاک زمانے میں جستجو |
| خود اپنی ذات میں ہی سماۓ ہوۓ ہیں ہم |
| ہے آسرا وفا کا ہمیں ایک اپنی تو |
| امید تم سے ایک لگاۓ ہوۓ ہیں ہم |
| ناراض موت سے ہیں یہاں اک طرف تو واں |
| احسان زندگی پہ جتاۓ ہوۓ ہیں ہم |
| اک بحر کی طرح سے بہے جائیں چار سو |
| اک آسماں کی طرح سے چھاۓ ہوۓ ہیں ہم |
| مرجھا گۓ تو کیا ہوا دنیا کے باغ میں |
| آۓ ہوۓ نہ خود سے ہیں لاۓ ہوۓ ہیں ہم |
| پیوست اک لڑی میں ہوۓ قلب اور جگر |
| اک تیر یوں جفا کا کہ کھاۓ ہوۓ ہیں ہم |
| قادر نہ دخل دو کہیں لگ جاۓ بد دعا |
| چھیڑو نہ اک جہاں کے ستاۓ ہوۓ ہیں ہم |
معلومات