تم اگرچہ ہو میرے پاس نہیں
کیا سبب ہے کہ دل اداس نہیں
مضمحل ہوں مگر نراس نہیں
خوش نہیں ہوں پہ محوِ یاس نہیں
اس کو طوفان کا ہو کیوں خدشہ
جس کو ساحل کی کوئی آس نہیں
عمر بھر بھی اگر تمہیں دیکھوں
بجھنے والی ہے دل کی پیاس نہیں
کیا کروں ان سے میں کوئی شکوہ
جو سمجھتے ہیں التماس نہیں
وقت ہر زخم کی دوا ہے مگر
وقت ہی تو ہمارے پاس نہیں
ہاتھ ہے دوسروں کی نبضوں پر
آپ اپنے سے روشناس نہیں
تیرا لہجہ تو ہے وہی لیکن
بات میں پر وہ اب مٹھاس نہیں
ہر طرح ہو گیا تباہ مگر
دل کی نکلی مرے بھڑاس نہیں
اس عمارت کو گر ہی جانا ہے
جس عمارت کی ہو اساس نہیں
جان دیتا ہوں جس پری وش پر
ڈالتا ہے وہ مجھ کو گھاس نہیں
دل کا شیشہ تو کب کا ٹوٹ چکا
ٹوٹتی ہے پر اپنی آس نہیں
غم نہیں آپ کو موافق ہیں
اور خوشیاں ہیں ہم کو راس نہیں
شام غمگین اس قدر کیوں ہے
دل ہمارا اگر اداس نہیں

0
5