جب بھی ملتے ہیں حسن والے سے
دل سنبھلتا نہیں سنبھالے سے
آپ کی زلف کے حوالے سے
ابر چھاۓ ہیں کالے کالے سے
نین تیرے ہیں مدھ کے پیالے سے
مکھ پہ ہیں چاند جیسے ہالے سے
کس سے تیرے لبوں کو دوں تشبیہ
لعل سے ہیں کہ ہیں یہ لالے سے
جان کہتے ہیں ہم تمہیں لیکن
جان کے پڑ گۓ ہیں لالے سے
سامنے کیسے ترے شکوہ کروں
پڑ گۓ ہیں زباں پہ تالے سے
چبھ گئی ایک پھانس یوں دل میں
جو نکلتی نہیں نکالے سے
زندگی کے ہمارے آنگن میں
کچھ اندھیرے ہیں کچھ اجالے سے
روز کرتی ہے میری تنہائی
مجھ سے باتیں ترے حوالے سے
طعنے لگتے جگر پہ تیر سے ہیں
طنز لگتے ہیں دل پہ بھالے سے
وقت کی عنکبوت نے قادر
ذہن پر بُن دۓ ہیں جالے سے

24