صدیاں گزر گئیں ہیں ترے انتظار میں |
آئی کمی مگر نہ کبھی اعتبار میں |
وہ جو قفس میں ہیں انہیں معلوم کیا بھلا |
کیسے چمن میں پھول کھلے ہیں بہار میں |
ہانکیں ہیں سب کو ایک ہی لاٹھی سے وہ عدو |
تو کس شمار میں ہے کہ میں کس شمار میں |
یوں حسن منتخب ہے ترا سب حسینوں میں |
اک دانہ ہے بہشت کا جیسے انار میں |
اتنا کہ اضطراب کا عادی میں ہو چکا |
آتا نہیں ہے چین مجھے اب قرار میں |
گھاٹے میں زندگی کو ہر اک سانس بیچ دی |
کنگال ہو گیا ہوں میں اس کاروبار میں |
آتی تھی تیری یاد سے مشکِ ختن کی بو |
پھیلی تھی چاندنی مرے قرب و جوار میں |
سہتے نہ اتنی آپ کی ہم مہربانیاں |
ہوتا یہ دل ہمارے اگر اختیار میں |
آتا ہے رشک مجھ پہ ہر اک بت تراش کو |
پتھر میں ہو چکا ہوں ترے انتظار میں |
کیوں آ کے خواب میں مجھے تم نے جگا دیا |
سویا ہوا تھا چین سے اپنے مزار میں |
آتے نہیں وہ یاد یوں لیکن کبھی کبھی |
اٹھتی ہے اک کسک سی دلِ بے قرار میں |
دکھتا نہیں ہے کچھ بھی اجالے میں مجھ کو پر |
آتا نظر ہے صاف مجھے سب غبار میں |
معلومات