| لے نہیں وہ تال وہ سرگم نہیں ہے |
| اب تری پایل میں وہ چھم چھم نہیں ہے |
| دوش پر زلف اپنے اب برہم نہیں ہے |
| سانس بھی اب سانس میں مدغم نہیں ہے |
| اب نہیں گرتی کسی دریا میں ندی |
| اب کسی ساگر میں دریا ضم نہیں ہے |
| جب بھی دیکھیں لگ رہی ہے اک جھڑی سی |
| آنسوؤں کا بھی کوئی موسم نہیں ہے |
| گو ستم گر ہے بہت ہی یہ زمانہ |
| تو بھی تو ظالم مگر کچھ کم نہیں ہے |
| لڑکھڑا کر گر بھی جاؤں میں تو کیا ہے |
| ہاتھ میں ساغر ہے جامِ جم نہیں ہے |
| پاک ہو جاۓ جو یکسر معصیت سے |
| وہ مری جاں یہ گلِ آدم نہیں ہے |
| کون سا دل ہے نہ تڑپے پیار میں جو |
| کون سی ہے آنکھ جو پرنم نہیں ہے |
| ایک سے بڑھ کر یہاں اک سورما ہے |
| کوئی بھی یاں پر کسی سے کم نہیں ہے |
| ہر طرف اٹھتی ہیں کالی بدلیاں کیوں |
| آپ کی یہ زلف جو برہم نہیں ہے |
| لب ترے کومل نہیں کم پنکھڑی سے |
| زلف تیری کم از ابریشم نہیں ہے |
| یاد بھی تیری ہے یا ہم سے گریزاں |
| یا وہ تنہائی کا اب عالم نہیں ہے |
معلومات