مرتے ہیں ان پہ جب ہم سو دل سے اور جاں سے |
شکوہ کریں جو ان سے آخر تو کس زباں سے |
دو چار ہی نفس ہیں بس زندگی کے باقی |
آئیں گے تو ملیں گے وہ عرش آشیاں سے |
آۓ یقیں نہ ان کو چاہت کا کیوں ہماری |
سو بار ہم ہیں گزرے اس ایک امتحاں سے |
تفصیل میں زیادہ باتوں کی تم نہ جاؤ |
مطلب سمجھ گۓ ہم پیرایۂ بیاں سے |
دیکھا جو حسن تیرا حور و قصور نے تو |
اک پل کو رہ گۓ سب انگشت در دہاں سے |
ہر اک کو یاد کر کے آخر کو روئیں کیوں ہم |
ملنا ہے ایک دن جب یارانِ رفتگاں سے |
ہر بھید کھل گیا جب اس دل کا سب جہاں پر |
ڈرتا ہوں راز کہتے اب اپنے رازداں سے |
اتنا ہی پھر ملے گا کوشش کہ جتنی ہو گی |
اترے گا من و سلوی ہر گز نہ آسماں سے |
کرتا کبھی ہوں پورا اک کام تک نہیں اور |
کرتا شروع ہوں میں ہر کام درمیاں سے |
یاد آیا خلد میں جو پہنچے یہاں پہ واپس |
" یہ تو وہی جگہ ہے نکلے تھے ہم جہاں سے " |
معلومات