آ کہ چلنا ہے بس بہت آگے
اے مرے ہم نفس بہت آگے
لاغری سے مری کشادہ ہوا
تنگ تھا یہ قفس بہت آگے
بے دھڑک بند ہو گیا اب دل
کرتا تھا پیش و پس بہت آگے
فکر کی ہے رسائی دور تلک
دل کی ہے دسترس بہت آگے
کم نہ رفتار دل کی ہے لیکن
بھاگتا ہے نفس بہت آگے
عشق تو رہ گیا کہیں پیچھے
بڑھ گۓ بوالہوس بہت آگے
اپنی بربادیوں کے ساماں کو
ہم سے ہیں ہم نفس بہت آگے
پاک جن سے چمن کو رکھا گیا
ہم سے تھے خار و خس بہت آگے
اس قدر تلخ گفتگو نہ کریں
بڑھ گۓ آپ بس بہت آگے
قتل کرتے ہو آپ کیوں ہم کو
ہم تو ہیں بے نفس بہت آگے
لگ نہ جاۓ نظر زمانے کی
بڑھ کے حد سے نہ ہنس بہت آگے
ان ہی باتوں سے اب ہوں گھبراتا
جن میں رہتا تھا رس بہت آگے
لے گئی اپنی زندگی سے ہمیں
ایک موجِ نفس بہت آگے
اور نہ ترسا شراب کو ساقی
ہم گۓ ہیں ترس بہت آگے
نہ رہا اب جہان میں قادر
تھا برس ہا برس بہت آگے

0
8