محفل میں آۓ ہیں وہ یوں زلفیں سنوار کے |
ٹکڑے ہوۓ ہزار دلِ بے قرار کے |
نکلا جو دن تو گریۂ شبنم بھی رک گیا |
آئی خزاں تو دن گۓ فصلِ بہار کے |
پایا اسے بھی ہم نے تو مانندِ اک سراب |
چرچے سنے تھے ہم نے بہت حسنِ یار کے |
منکر نکیر نے مجھے آ کر جگا دیا |
سویا ہوا تھا قبر میں پاؤں پسار کے |
زندہ تھا جب میں تو کھبی پوچھا نہ آ کے حال |
چکر لگا رہے ہیں مگر اب مزار کے |
جو ہجر میں مزہ ہے بھلا وصل میں کہاں |
لمحے تھے دل فریب بہت انتظار کے |
کچھ اس طرح سے عمرِ رواں ہے گزر رہی |
کچھ بے خودی کے بیچ ہوں کچھ میں خمار کے |
کب تک ارم کے دھوکے میں زاہد رہو گے تم |
کب تک رکھو گے جی کو یوں ہی اپنے مار کے |
ممنوع میرا داخلہ محفل میں ہو گیا |
در بند مجھ پہ ہوگۓ شہرِ نگار کے |
توڑیں گے ہم بھی آپ کے اک دن غرور کو |
ہم بھی رہیں گے چاند زمیں پر اتار کے |
کیا ہم بھلا گزارتے دنیا میں زندگی |
خود زندگی نے رکھ دیا ہم کو گزار کے |
معلومات