بڑی خلعت میں پہنایا گیا ہوں
ترے کوچے میں دفنایا گیا ہوں
نشاں دے کر میں بھٹکایا گیا ہوں
تصور دے کے بہلایا گیا ہوں
کبھی مصلوب کر وایا گیا تو
کبھی اینٹوں میں چنوایا گیا ہوں
بہت دیکھی ہے میں نے ایک دنیا
بہت تیری گلی آیا گیا ہوں
رکھا کیوں سینے میں یہ دل ہی آخر
بہت دل دے کے تڑپایا گیا ہوں
لگا رہتا ہوں ہر دم جستجو میں
خرد دے کر میں الجھایا گیا ہوں
ہوئی خاطر مدارت کب یاں گرچہ
بہت ہی دور سے لایا گیا ہوں
جہاں سے تھا سفر میرا عدم تک
مکاں سے لا مکاں لایا گیا ہوں
قیام اتنا فقط تھا اس جہاں میں
کہ جتنی دیر میں آیا گیا ہوں
وہی آتا نہیں ہے کام مجھ کو
کہ میں جس کام میں لایا گیا ہوں
خیالوں میں ترے کھویا کبھی تو
تصور میں ترے پایا گیا ہوں
نکالا گو گیا جنت سے لیکن
میں پھر آؤں گا فرمایا گیا ہوں
مقامِ آدمیت ہے کسی نے
نہیں دیکھا جو دکھلایا گیا ہوں

0
1